نظام کا مسودہ پیش کیاگیا۔ جس کی غرض وغایت یہ تھی کہ کمیٹی کی حیثیت ایک نمائندہ جماعت کی سی ہو۔ لیکن کچھ ممبران نے اس سے اختلاف ظاہر کیا۔ بعد کے بحث ومباحثہ اور گفتگو سے مجھے یہ پتہ لگا کہ یہ لوگ دراصل کمیٹی کو دو ایسے حصوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ جن میں اتحاد صرف برائے نام ہی ہوگا۔ چنانچہ میں نے اپنا استعفاء پیش کرنے سے پہلے ممبران کو اپنی اس رائے سے اچھی طرح آگاہ کر دیا تھا۔ بدقسمتی سے کمیٹی میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے مذہبی فرقے کے امیر کے سوا کسی دوسرے کا اتباع کرنا سرے سے گناہ سمجھتے ہیں۔ چنانچہ قادیانی وکلاء میں سے ایک صاحب نے جو میرپور کے مقدمات کی پیروی کر رہے ہیں۔ حال ہی میں اپنے ایک بیان میں واضح طور پر اس خیال کا اظہار کر دیا۔ انہوں نے صاف طور پر کہا کہ وہ کسی کشمیر کمیٹی کو نہیں مانتے اور جو کچھ انہوں نے یا ان کے ساتھیوں نے اس ضمن میں کیا وہ ان کے امیر کے حکم کی تعمیل تھی۔ مجھے اعتراف ہے کہ میں نے ان کے اس بیان سے اندازہ لگایا کہ تمام قادیانی حضرات کا یہی خیال ہوگا اور اس طرح میرے نزدیک کشمیر کمیٹی کا مستقبل مشکوک ہوگیا۔ میں کسی صاحب پر انگشت نمائی نہیں کرنا چاہتا۔ ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے دل ودماغ سے کام لے اور جو راستہ پسند ہو اسے اختیار کرے۔ حقیقت میں مجھے ایسے شخص سے ہمدردی ہے جو کسی روحانی سہارے کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے کسی مقبرہ کا مجاور یا کسی زندہ نام نہاد پیر کا مرید بن جائے۔ جہاں تک مجھے علم ہے کشمیر کمیٹی کی عام پالیسی کے متعلق ممبران میں کسی قسم کا اختلاف نہیں۔ پالیسی سے اختلاف کی بناء پر کسی نئی پارٹی کی تشکیل پر اعتراض کرنے کا کسی کو حق نہیں پہنچتا۔ لیکن جہاں تک میں نے حالات کا جائزہ لیا ہے کشمیر کمیٹی کے چند ارکان کو جو اختلافات ہیں وہ بالکل بے تکے ہیں۔ ان حالات کے پیش نظر مجھے اس امر کا یقین ہے کہ کمیٹی میں اب ہم آہنگی کے ساتھ کام نہیں ہوسکتا اور ہم سب کا مفاد اسی میں ہے کہ موجودہ کشمیر کمیٹی کو ختم کر دیا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مسلمانان کشمیر کی رہنمائی اور مدد کے لئے برطانوی ہند میں ایک کشمیر کمیٹی ضرور ہونی چاہئے۔ اس لئے اگر برطانوی ہند کے مسلمان اپنے کشمیری بھائیوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو وہ مجاز ہیں کہ ایک کھلے عام اجلاس میں ایک نئی کشمیر کمیٹی کی تشکیل کر لیں۔ موجودہ حالات کے پیش نظر مجھے صرف یہی ایک راستہ دکھائی دیتا ہے۔ میں نے اپنے ان احساسات کو آپ کے سامنے کھلے الفاظ میں پیش کر دیا ہے۔ جنہوںنے مجھے استعفاء دینے پر مجبور کیا۔ مجھے امید ہے کہ میری یہ صاف گوئی کسی شخص کو ناگوار نہ گزرے گی۔ کیونکہ میرا مقصد نہ کسی کی برائی کرنا ہے اور نہ کسی پر انگلی اٹھانا۔ (حرف اقبال ص۲۲۰تا۲۲۳)