سرہربرٹ ایمرسن پنجابی مسلمانوں کی صحیح قیادت کی عدم موجودگی کا گلہ کرتے ہیں۔ اے کاش! وہ سمجھ سکتے کہ حکومت کی اس شہری دیہاتی تمیز نے، جسے وہ خود غرض سیاسی حیلہ بازوں کے ذریعہ برقرار رکھتی ہے۔ جماعت کو ناقابل بنا دیا ہے کہ وہ صحیح رہنما پیدا کر سکے۔ میرے خیال میں اس حربہ کا استعمال ہی اس غرض سے کیاگیا ہے۔ تاکہ کوئی صحیح رہنما پیدا نہ ہوسکے۔ سرہربرٹ ایمرسن صحیح رہنما کی عدم موجودگی کا رونا روتے ہیں اور میں اس نظام کا رونا روتا ہوں۔ جس نے ایسے رہنما کی پیدائش کو ناممکن بنادیا ہے۔ (حرف اقبال ص۱۲۸)
ضمیمہ۲۱؎
مجھے معلوم ہوا ہے کہ میرے بیان سے بعض حلقوں میں غلط فہمیاں پیدا ہوگئی ہیں اور یہ خیال کیا جارہا ہے کہ میں نے حکومت کو یہ دقیق مشورہ دیا ہے کہ وہ قادیانی تحریک کا بہ جبر انسداد کر دے۔ میرا یہ مدعا ہرگز نہ تھا۔ میں نے اس امر کی وضاحت کر دی تھی کہ مذہب میں عدم مداخلت کی پالیسی ہی ایک ایسا طریقہ ہے۔ جسے ہندوستان کی موجودہ حکمران قوم اختیار کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی پالیسی ممکن ہی نہیں۔ البتہ مجھے یہ احساس ضرور ہے کہ یہ پالیسی مذہبی جماعتوں کے فوائد کے خلاف ہے۔ اگرچہ اس سے بچنے کی راہ کوئی نہیں۔ جنہیں خطرہ محسوس ہو، انہیں خود اپنی حفاظت کرنی پڑے گی۔
میری رائے میں حکومت کے لئے بہترین طریق کار یہ ہوگا کہ وہ قادیانیوں کو ایک الگ جماعت تسلیم کر لے۔ یہ قادیانیوں کی پالیسی کے عین مطابق ہوگا اور مسلمان ان سے ویسی رواداری سے کام لے گا۔ جیسے وہ باقی مذاہب کے معاملہ میں اختیار کرتا ہے۔ (حرف اقبال ص۱۲۸،۱۲۹)
اسٹیٹس مین کے جواب میں۲۲؎
میرے بیان مطبوعہ ۱۴؍مئی پر آپ نے تنقیدی اداریہ لکھا۔ اس کے لئے میں آپ کا ممنون ہوں۔ جو سوال آپ نے اپنے مضمون میں اٹھایا ہے وہ فی الواقعہ بہت اہم ہے اور مجھے مسرت ہے کہ آپ نے اس سوال کی اہمیت کو محسوس کیا ہے۔ میں نے اپنے بیان میں اسے نظرانداز کر دیا تھا۔ کیونکہ (میں سمجھتا ہوں کہ قادیانیوں کی تفریق کی پالیسی کے پیش نظر جو انہوں نے مذہبی اور معاشرتی معاملات میں ایک نئی نبوت کا اعلان کر کے اختیار کی ہے۔ خود حکومت کا فرض ہے کہ وہ قادیانیوں اور مسلمانوں کے بنیادی اختلافات کا لحاظ رکھتے ہوئے آئینی اقدام اٹھائے) اور اس کا انتظار نہ کرے کہ مسلمان کب مطالبہ کرتے ہیں اور مجھے اس احساس میں حکومت کے سکھوں کے متعلق رویہ سے اور بھی تقویت ملی۔ سکھ ۱۹۱۹ء تک آئینی طور پر علیحدہ سیاسی