آج بھی اگر کسی ملک کی حکومت اس نام نہاد، عدم مداخلت کی پالیسی پر کاربند رہتی ہے تو ظاہر ہے اس کا یہ عمل اس ملک میں بسنے والے مذاہب کے لئے مہلک ہی ثابت ہوگا۔ یہ الگ بات ہے کہ انگریز اگر اس پالیسی کو اختیار نہ کرتے تو کون سی پالیسی اختیار کرتے؟ ظاہر ہے اگر وہ اس کے برعکس مداخلت کی پالیسی اپناتے تو خود ان کے اقتدار کو دھچکا لگتا۔ لہٰذا انہوں نے وہ پالیسی اپنائی جس سے اس ملک میں بسنے والے مذاہب واقوام کی وحدت پر زد پڑتی۔ مگر اس کا اقتدار استحکام پکڑتا تھا اور یہ بھی اس نے اس حد تک ہی اپنائی جس حد تک کہ اس کو فائدہ پہنچا سکتی تھی۔
دراصل انگریز کی پالیسیاں کوئی سے اخلاقی سانچوں میں ڈھلی ہوئی نہ ہوتی تھیں۔ وہ تو اس کے مفاد کے تابع تھیں۔ گویا ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور۔ کسی مذہب میں مداخلت نہ کرنے کا نعرہ لگانے والے انگریز نے جب دیکھا کہ ہندوستان کی مختلف قومیں آپس میں ایکا کر کے اس کے اقتدار کا تختہ الٹ دینا چاہتی ہیں تو اس نے مذہب میں مداخلت کرنے سے بھی گریز نہ کیا اور یہ حقیقت تو الم نشرح ہے کہ سکھ ۱۹۱۹ء تک ہندوؤں ہی کا ایک حصہ شمار ہوتے تھے۔ لاہور ہائی کورٹ نے بھی فیصلہ کیا تھا کہ سکھ، ہندو ہیں۔ سکھوں کی طرف سے علیحدگی کا کوئی مطالبہ بھی نہیں کیاگیا تھا۔ مگر انگریز نے اپنی مشہور زمانہ ’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی کے ماتحت ۱۹۱۹ء میں سکھوں کو ہندوؤں سے جداگانہ جماعت قرار دیا۔ (حرف اقبال ص۱۳۵،۱۳۶ ملخص)
یہ دوسری بات کہ اس نے یہی فیصلہ مسلم قادیانی نزاع میں نہ کیا اور یہ بھی (Divide and Rule) کے عین مطابق تھا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اقبال کے پاکستان میں کون سی پالیسی اختیار کی جانی چاہئے؟ ہمارے ہاں یوں تو مذہبی معاملات میں اکثر ٹانگ اڑائی جاتی ہے۔ مگر جب بعض اندرونی وبیرونی اسلام دشمن تحریکوں کے انسداد یا ان کی مخصوص حرکات پر گرفت کی باری آتی ہے تو ہمارے مسلمان حکمران عجیب شان بے نیازی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ بلکہ ۱۹۵۳ء میں تو ایسا بھی ہوا کہ حب رسولؐ کے جذبہ سے سرشار اور ناموس مصطفیﷺ کا تحفظ چاہنے والے بے گناہ مسلمانوں کے سینے گولیوں سے چھلنی کر دئیے گئے۔ حالانکہ ایک مسلمان حکومت ہر لحاظ سے اس امر کی پابند ہے کہ وہ مسلمانوں کی ملی وحدت کا تحفظ کرے اور ظاہر ہے اس کے لئے سروحدت کی حفاظت شرط اوّلین ہے کہ ؎
حفظ سروحدت ملت ازو