اور تب سے اب تک قادیانیوں کے اسرائیلی یہودیوں کے ساتھ جو بین الاقوامی صہیونیت کے علمبردار ہیں۔ نہایت گہرے دوستانہ تعلقات چلے آتے ہیں اور اس میں سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان اور پاکستانی عوام کے نزدیک اسرائیل کا وجود ہی غلط ہے۔ وہ اسے سازش اور جارحیت کی پیداوار قرار دیتے ہیں۔ پاکستان، اسرائیل کے مقابلہ میں عربوں کا سب سے بڑا حمایتی ہے اور اس نے اس عرب دوستی کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ اسی طرح اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان کا سب سے بڑا دشمن اسرائیل ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ اسرائیل کے بانی ڈیوڈ بن گوریان کی وہ تقریر جو اس نے اگست ۱۹۶۷ء میں ساردبون یونیورسٹی پیرس میں کی وہ اس کا بین ثبوت ہے۔
بن گوریان نے کہا: ’’پاکستان دراصل ہمارا آئیڈیالوجیکل چیلنج ہے۔ بین الاقوامی صہیونی تحریک کو کسی طرح بھی پاکستان کے بارے میں غلط فہمی کا شکار نہیں رہنا چاہئے اور نہ ہی پاکستان کے خطرے سے غفلت کرنی چاہئے۔ پاکستانی عوام عربوں سے محبت کرتے ہیں اور یہودیوں سے نفرت اور عربوں سے یہ محبت خود عربوں سے زیادہ خطرناک ہے۔ لہٰذا ہمیں پاکستان کے خلاف جلد سے جلد قدم اٹھانا چاہئے۔ پاکستان میں فکری سرمایہ اور جنگی قوت ہمارے لئے آگے چل کر سخت مصیبت کا باعث بن سکتا ہے۔ لہٰذا ہندوستان سے گہری دوستی ضروری ہے۔ بلکہ ہمیں اس تاریخی عناد ونفرت سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ جو ہندوستان، پاکستان کے خلاف رکھتا ہے۔ یہ تاریخی عناد ونفرت ہمارا سرمایہ ہے۔ ہمیں پوری قوت سے بین الاقوامی دائروں کے ذریعے سے بڑی طاقتوں میں اپنے نفوذ واثر سے کام لے کر ہندوستان کی مدد کرنی چاہئے اور پاکستان پر بھرپور ضرب لگانے کا انتظام کرنا چاہئے۔ یہ کام نہایت رازداری کے ساتھ اور خفیہ منصوبوں کے تحت انجام دینا چاہئے۔‘‘
(یروشلم پوسٹ، ۹؍اگست ۱۹۶۷ء بحوالہ روزنامہ نوائے وقت لاہور ص۱، مورخہ ۲۲؍مئی ۱۹۷۲ئ، ۳؍ستمبر ۱۹۷۳ئ)
اس پس منظر میں یہ بات اور زیادہ اہم اور تعجب خیز ہوجاتی ہے کہ اسی اسرائیل نے ایک ایسی جماعت کو آخر کیوں اپنے سینے سے لگارکھا ہے جس کا ہیڈکوارٹر ہی اس کے آئیڈیالوجیکل چیلنج پاکستان میں واقع ہے اور جس کا سربراہ اور دیگر منصبدار سب پاکستانی ہیں۔ آخر قادیانی وہاں کیا کرتے ہیں؟ قادیانیوں کا مفروضہ یہ ہے کہ وہ تبلیغ اسلام کے لئے وہاں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ کس کو تبلیغ کرتے ہیں؟ کیا ان یہودیوں کو جو اپنی تمام عصبیتوں کے تحت وہاں اکٹھے ہیں اور اپنی مملکت کا استحکام اور اس کی توسیع چاہتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ یہ ممکن نہیں تو پھر کیا ان عربوں کو مسلمان