یہ مجموعہ چار ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں حضرت علامہؒ کے قلم سے ختم نبوت کی تہذیبی وثقافتی اور سیاسی ومذہبی قدروقیمت کا تذکرہ ہے۔ اسی باب میں حضرت علامہؒ کا وہ مکتوب بھی ہے جس کا مکمل متن پہلی دفعہ منظر عام پر آرہا ہے۔ یہ خط اگرچہ آج سے سات برس پیشتر اقبال اکادمی، کراچی کی ’’انوار اقبال‘‘ نامی کتاب میں بھی چھپ چکا ہے۔ مگر کتاب مذکور کے مرتب اور اقبال اکادمی کراچی کے ڈائریکٹر جناب بشیر احمد ڈار نے ستم یہ ڈھایا کہ اس کا وہ اہم ترین حصہ ہی متن سے غائب کر دیا جس میں حضرت علامہؒ نے منکر ختم نبوت کو واجب القتل، قرار دیا تھا۔ مکمل متن کی اشاعت کی سعادت شاید میرے مقدر میں تھی جو اس کتاب کی ترتیب واشاعت سے میرے حصہ میں آئی۔ فالحمد ﷲ علیٰ ذالک!
دوسرا باب ان مضامین وبیانات پر مشتمل ہے جو حضرت علامہؒ نے جون ۱۹۳۳ء سے جنوری ۱۹۳۶ء تک قادیانیت کے رد میں شائع فرمائے۔ اس باب کے سب سے اہم مضمون اسلام اور احمدیت میں ایک تاریخی غلطی تھی۔ جس کی حضرت علامہؒ ہی کے حوالے سے تصحیح کر دی گئی ہے۔ (دیکھئے ص) اسی طرح ایک اور اہم سہو کی بھی اصلاح کی گئی ہے۔ (دیکھئے ص) قادیانی اور جمہور مسلمان اور اسٹیٹس مین کے جواب میں اس باب کے نہایت اہم مضامین ہیں۔ قادیانی اور جمہور مسلمان ہی میں حضرت علامہؒ نے فرنگی حکمرانوں سے یہ مشہور عام مطالبہ کیا تھا کہ قادیانیوں کو مسلمانوں سے ایک الگ اقلیت قرار دیا جائے۔
تیسرے باب میں علامہ مرحوم کے وہ خطوط ہیں جو انہوں نے وقتاً فوقتاً مختلف علمی وسیاسی شخصیتوں کو لکھے۔ پنڈت جواہر لال نہرو کے نام خط اس باب کا انتہائی اہم خط ہے۔ میری معلومات کے مطابق یہ خط خود پنڈت جواہر لال نہروکے مرتبہ مجموعہ (A Bunch of old Letters) کے ص۱۸۱ اور عبدالمجید حریری، ایم۔اے، ایل۔ایل۔بی کے کچھ پرانے خط، (اردو ترجمہ A Bunch of old Letters) کے صفحہ ۲۹۳ پر چھپ چکا ہے۔ میں نے یہ خط جناب سید عبدالواحد معینی کے انگریزی مجموعے (Thoughts and Reflections of Iqbal) سے لیا ہے۔ مولانا سید سلیمان ندویؒ کے نام حضرت علامہؒ کے خطوط بھی اس سلسلہ کی ایک اہم کڑی ہیں۔ علامہ مرحوم نے ختم نبوت کے موضوع پر جن شخصیتوں سے علمی استفادہ کیا۔ ان میں علامہ انور شاہ کشمیریؒ اور مولانا سید سلیمان ندویؒ سرفہرست ہیں۔ اوّل الذکر کو مرحوم دنیائے اسلام کے جید ترین محدثین میں شمار کرتے۱؎ اور موخر الذکر کو علوم اسلام کی جوئے شیر کافرہاد۲؎