M
سخنہائے گفتنی
نہ میں ادیب ہوں، نہ مصنف، نہ مؤلف۔ محض ایک طالب علم ہوں اور یہ کتاب میری اوّلین طالبعلمانہ کاوش۔ جس میں حکیم الامت حضرت علامہ اقبالؒ کی ان تمام تحریروں کو یکجا کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو انہوں نے قادیانیت پر نقد ونظر کرتے ہوئے وقتاً فوقتاً شائع فرمائیں۔
قادیانیت محض ایک مذہبی مسئلہ ہی نہیں جیسا کہ بعض لوگ خیال کرتے ہیں یہ اپنے مخصوص احوال وظروف کے پیش نظر ایک ایسا قومی وملی، سیاسی واجتماعی اور تہذیبی ومعاشرتی مسئلہ ہے جو براہ راست ہمارے آئین اور دستور سے تعلق رکھتا ہے۔ اس مجموعہ کی ترتیب کی غرض وغایت صرف اس قدر ہے کہ اس ملی وقومی مسئلے پر حضرت علامہؒ کے بصیرت افروز خیالات کا اظہار واجتماع ہو جائے کہ آج تک کسی نے اس پہلو کی طرف توجہ نہیں کی۔ اﷲتعالیٰ میری اس حقیر سعی کو قبول فرمائیں اور اس میں خیر اور افادۂ عام کا جو ہر زیاد کریں۔ ’’وما توفیقی الا باﷲ علیہ توکلت وھو حسبی ونعم الوکیل‘‘
یہ مسئلہ مسلمانوں کی حیات ملی کے لئے جس قدر اہمیت رکھتا ہے۔ افسوس اس سے اتنی ہی زیادہ بے اعتنائی برتی گئی اور مجرمانہ تغافل روا رکھا گیا۔
اس کتاب کی ترتیب کے دوران بلا مبالغہ بیسیوں کتابیں میری نظر سے گزریں۔ ان میں اکثر کا تعلق اقبالیات سے تھا۔ مگر یہ دیکھ کر سخت تعجب ہوا کہ حضرت علامہؒ کے نام پر چلنے والے اداروں نے علامہ مرحوم پر اب تک جتنی کتابیں شائع کی ہیں۔ ان میں کوئی بھی ’’اقبال اور قادیانیت‘‘ ایسے اہم موضوع پر کوئی روشنی نہیں ڈالتی۔ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے جان بوجھ کر اس مسئلہ کو نظر انداز کیاگیا۔ اس کے برعکس ایسی کتابیں میری نظر سے ضرور گزری ہیں۔ جن میں قادیانی نبوت کی تعریف کا پہلو نکلتا یا قادیانیوں کے بارے میں حضرت علامہؒ کے خیالات وافکار کی غلط تعبیر ہوتی یا پھر ان میں نقب لگائی جاتی ہے۔ کم ازکم میری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ ایسا کیوں ہے؟ اگر اس میں قادیانی رسوخ کو دخل ہے تو یہ بات اور زیادہ افسوسناک بلکہ شرمناک ہے اور اقبال اکادمیوں کو اس کی جرأت نہ ہونی چاہئے۔