عقلمند تو کیا ہر کم سے کم عقل مند انسان بھی مرزا کے اس دجل وفریب اور دھوکہ کو بخوبی جان سکتا ہے کہ پیشن گوئی اس حمل قریب کے تھی جب لڑکے کی بجائے لڑکی پیدا ہوئی تو پھر یہ کہہ دیا کہ ’’اس کے بعد جب بھی ہزار لڑکی کے بعد لڑکا ہو تو میری پیشین گوئی سچی ہوگی‘‘ یہ ہیں امت مرزائیہ کے مہدی ونبی اور معجون مرکب اور مجہول النسب مجدد۔
آنجہانی مرزا قادیانی کی جھوٹی پیشین گوئی نمبر۳
مرزا قادیانی کا ۱۸۹۳ میں عیسائیوں کے ساتھ امر تسر میں مباحثہ ہوا۔ جو کہ ۱۵ دن تک ہوتا رہا مرزا قادیانی کو شکست ہوئی تو اس شرمندگی کو دور کرنے کیلئے مباحثہ کے آخری روز پیشن گوئی کی کہ: ’’میں اقرار کرتا ہوں کہ اگر یہ پیشن گوئی جھوٹی نکلی یعنی وہ فریق جو خدا کے نزدیک جھوٹ پر ہے۔ ۱۵ ماہ کے عرصہ میں آج ۵ جون ۱۸۹۳ سے بسزائے موت ہاویہ میں نہ پڑے تو میں ہرایک سزا کے اٹھانے کے لئے تیار ہوں، مجھ کو ذلیل کیا جائے، روسیاہ کیا جاوے، میرے گلے میں رسہ ڈال کر مجھے پھانسی دیا جاوے۔ ہر ایک بات کیلئے تیار ہوں، میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ضرور وہ ایسا ہی کریگا ضرور کریگا۔ زمین وآسمان ٹل جائیں پر اس کی باتیں نہ ٹلیں گی۔‘‘
(جنگ مقدس ص۲۱۱، خزائن ج۶ ص۲۹۳)
اس فریق سے مراد اور اول توجہ صرف آتھم (عبداللہ آتھم) کی طرف رہی اور اب تک اسی کو اصل مصداق پیشن گوئی کا سمجھتے ہیں۔ (کتاب البریہ ص۲۴۷ حاشیہ، خزائن ج۱۳ ص۲۸۴)
عبداللہ آتھم مقررہ میعاد میں نہ مرا۔
بلکہ مسٹر عبداللہ آتھم بچ گیا ۔ (انوار الاسلام ص۲، خزائن ج۹ ص۲)
آنجہانی مرزا قادیانی کا ’’دجل ودھوکہ‘‘
مرزا قادیانی مہاکذاب کی جب یہ پیشین گوئی بھی جھوٹی نکلی تو دجل ودھوکہ سے کام لیتے ہوئے کہتا ہے کہ: ’’آتھم فوت ہوچکا میعاد کے اندر یا میعاد کے باہر آخر مرتو گیا۔‘‘
(تتمہ حقیقت الوحی ص۱۲۹، خزائن ج۲۲ص۵۶۶)
بعض نادان بھی کہتے ہیں کہ آتھم اپنی میعاد کے اندر نہیں مرا لیکن وہ جانتے ہیں کہ آخر مرتو گیا… پیشن گوئی کا میعاد کے اندر پورا ہونا ضروری نہیں۔
(تتمہ حقیقت الوحی ص۱۱۸ ، خزائن ج۲۲ص۵۵۴)