کی متوکلانہ، زہدانہ، فقیرانہ اور سادہ زندگی کا ایمان افروز نمونہ ملاحظہ فرماچکے ہیں اور اس کے مقابلہ میں چودھویں صدی کے قادیانی متنبی اور اس کے گھر والوں کے تکلفات اور دنیادارانہ اخراجات اور امیرانہ ٹھاٹھ کا نہایت سرسری خاکہ دیکھ چکے ہیں اور یہ اس شخص کے ہاں کی کیفیت ہے جو نہایت ڈھٹائی کے ساتھ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تمام کمالات کا ہر پہلو سے جامع اور حامل کہلاتا ہے۔ لیکن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کے اہل بیت رضوان اﷲ علیہم اجمعین کی تمام ضروریات زندگی پر ساری عمر میں جس قدر رقم صرف ہوئی ہوگی اس سے غالباً کئی گنا زیادہ رقم مرزاقادیانی کی صرف ’’مشک خالص‘‘ پر صرف ہوچکی ہے۔ ان کی گھڑیوں، کلاکوں، قالینوں، مفرح جات وکشتہ جات وپارچات وفروٹ اور مکھن، گھی، انڈوں، کیک، بسکٹوں، خیموں اور قناتوں اور پوستینوں داودرکوٹوں اور انگریزی پاخانوں اور پان الائچی وغیرہ تکلفات پر خدا ہی کو معلوم ہے کہ کس قدر رقم خرچ ہوئی ہوگی۔ پھر ان کی بیوی اور صاحبزادی اور ’’خاندان نبوت‘‘ کی دیگر مستورات کے ریشمی کپڑوں، جالیوں، زیوروں اور فینسی چیزوں پر نہ معلوم کتنی دولت لٹائی گئی ہے اور یہ تو آج سے چوتھائی صدی پیشتر کے قصے ہیں۔ مرزاقادیانی کے صاحبزادہ اور موجودہ خلیفہ مرزا محمود نے ان تکلفات نبوت میں جو جو اصلاحات آج کل نافذ کر رکھی ہیں اور قادیان شریف کو ہر پہلو سے پیرس کا پورا نمونہ بنانے کے لئے جو لاکھوں روپے نہایت فیاضی کے ساتھ صرف کر دئیے ہیں۔ ان کا تو ذکر ہی کیا ہے؟ پس ان تمام حالات کو سامنے رکھ کر انصاف پسند حضرات ہی فیصلہ کر کے بتائیں کہ کیا متنبی قادیان اور اس کے خاندان کو حضور رسول مقبولﷺ اور کے اہل بیتؓ کے ساتھ وہ نسبت بھی حاصل ہے یا نہیں۔ جو زمین کے ذرے کو آفتاب کے ساتھ ہوسکتی ہے؟‘‘
مسلمانو! قادیان کے دکاندار اور دنیا پرست متنبی اور اس کے عیار ایجنٹوں کے دام فریب سے بچو! ؎
حق پہ رہ ثابت قدم باطل کا شیدائی نہ ہو
تجھ کو گر ایمان پیارا ہے تو مرزائی نہ ہو