مرزاغلام احمد کو نبی ماننے والا شخص ہندو، عیسائی، یہودی، بودھ، پارسی اور چینی کو نہیں محمد رسول اﷲ (ہماری جانیں آپ پر قربان ہوں) کے امتیوں کو اپنا اصلی حریف سمجھتا ہے۔ قادیانی اچھی طرح جانتے ہیں کہ مسلمان ان کو کافر سمجھتے ہیں اور ’’قادیانی جماعت‘‘ مسلمانوں کا کوئی فرقہ نہیں ہے۔ وہ ایک الگ امت ہے۔ جس کے نبی مرزاغلام احمد قادیانی ہیں۔ اس لئے ان کے صحابہ، ام المؤمنین اور خلفاء بھی دوسرے ہی افراد ہیں۔ ان عقائد کی موجودگی میں چوہدری ظفر اﷲ خان سے پاکستان کی فلاح وسربلندی کے لئے جدوجہد کرنے کی توقع رکھنا ہی حماقت ہے۔ ان کی ذات سے پاکستان کو نقصان تو البتہ پہنچ سکتا ہے اور پہنچ رہا ہے۔ مگر فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔
چوہدری ظفر اﷲ خاں صاحب اور وزارت خارجہ کے علاوہ قادیانی مذہب کی تبلیغ کا فرض بھی انجام دیتے ہیں۔ اس طرح غریب پاکستان دوگونہ عذاب میں مبتلا ہے۔ یہ جو وہ مہینوں ممالک غیر میں جاکر رہتے ہیں تو اس سیروسیاحت اور نقل وحرکت کا بہت بڑا حصہ قادیانیت کی تبلیغ میں صرف ہوتا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ ایک قادیانی کی حیثیت سے جو کچھ وہ کرتے ہیں درست کرتے ہیں۔ ان کو اپنے مذہب اور اپنے نبی سے عشق ہے۔ ان کو ایک وفادار اور مخلص قادیانی، مرزائی یا احمدی کی حیثیت سے یہی کچھ کرنا چاہئے تھا۔ پاکستان کے گورنر جنرل وزیراعظم یا کابینہ کے احکام کو مرزابشیرالدین محمود خلیفہ قادیان کے احکام پر وہ ترجیح کس طرح دے سکتے ہیں۔ نہیں دے سکتے یہ ان کے مذہب ایمان اور آخرت کے بنے بگڑنے کا معاملہ ہے۔
یہ وہ شواہد، حقائق اور واقعات ہیں جن کی بنیاد پر ہم حکومت پاکستان سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ چوہدری ظفر اﷲ خاں کو جلد از جلد وزارت خارجہ کے عہدے سے سبکدوش کر دیا جائے۔ اس معاملہ میں جتنی تاخیر ہوگی اتنی ہی مضرتیں بڑھتی اور پیچیدگیاں پیدا ہوتی چلی جائیں گی۔
یہ بھی محض پروپیگنڈا ہے کہ چوہدری صاحب ’’قانون ودستور‘‘ کے ماہر ہیں۔ اگر یہ بات اپنی جگہ درست بھی ہو تو ہم ایسی قانونی مہارت اور دستوری قابلیت کو لے کر کیا کریں۔ جس نے پاکستان کی سیاست خارجہ میں مشکلات پیدا کر دی ہوں اور جس نے ہمارے معاملات کو سوارنے کے بجائے اور بگاڑ دیا ہو۔ اس عذاب کو سہتے سہتے پانچ سال ہوگئے۔ بہت تجربے کر کے دیکھ لئے اب تو اس سے قوم اور ملک کو چھٹکارا مل جانا چاہئے۔
یہ درست ہے کہ چوہدری ظفر اﷲ خان برطانیہ اور امریکہ کے محبوب ہیں۔ مگر اس محبوبیت کے لئے کیا ہم اپنا خرابہ کر لیں۔ آخر ہم کب تک برطانیہ اور امریکہ کی ناز برداریاں کرتے رہیں گے۔ ہمیں جرأت کے ساتھ قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اس عالم جدوجہد میں