تمام مسلمانوں کو بکلی ترک کرنا پڑے گا … مرزائیوں کو مرزاقادیانی کا حکم
یہاں تک تو مرزائی لٹریچر سے صرف اس قدر ثابت کیاگیا ہے کہ مرزاقادیانی اور ان کی امت نے اعتقاد اور قول کے درجہ میں مسلمانوں سے مکمل علیحدگی اختیار کر رکھی۔ اب میں بتانا چاہتا ہوں کہ یہ لوگ شروع سے اب تک تمام دینی اور دنیوی معاملات واعمال میں بھی مسلمانوں سے بالکل الگ تھلگ رہنے کی مستقل پالیسی پر کاربند ہیں۔ یہ پالیسی مرزاقادیانی کے حسب ذیل حکم کے ماتحت ہے۔ جو انہوں نے اپنی امت کو دیا تھا۔
’’تمہیں (مخاطب مرزائی ہیں) دوسرے فرقوں کو جو دعویٰ اسلام کرتے ہیں بکلی ترک کرنا پڑے گا اور تمہارا امام تم میں سے ہوگا۔ پس تم ایسا ہی کرو۔ کیا تم چاہتے ہو کہ خدا کا الزام تمہارے سر پر ہو اور تمہارے عمل حبط ہو جائیں اور تمہیں کچھ خبر نہ ہو۔‘‘
(اربعین نمبر۳ حاشیہ ص۲۸، خزائن ج۱۷ ص۴۱۷)
اس پالیسی کے متعین ہونے کے بعد مثال کے طور پر نماز تبلیغ رشتہ ناتہ میں مسلمانوں سے مکمل علیحدگی کے چند واقعات پڑھئے۔
اشاعت قرآن کے کام میں شرکت سے انکار
قادیانی جماعت کے بڑے معتمد علیہ مولوی سرور شاہ نے اپنی کتاب (کشف الاختلاف ص۴۲) میں لکھا ہے: ’’کیا غیراحمدیوں کے ساتھ سیدنا حضرت مسیح موعود کا عمل درآمد کسی پر مخفی ہے۔ آپ اپنی ساری زندگی میں نہ غیروں۱۱؎ کی کسی انجمن کے ممبر ہوسکے اور نہ ان میں سے کسی کو اپنی انجمن کا ممبر بنایا اور نہ کبھی ان سے چندہ۱۲؎ مانگا۔ حتیٰ کہ ایک دفعہ علی گڑھ میں قرآن مجید کی اشاعت کی غرض سے ایک انجمن بنائی گئی اور وہاں کے سیکرٹری صاحب نے ایک خاص خط بھیجا کہ چونکہ آپ لوگ خادم اور ماہر قرآن مجید ہیں۔ لہٰذا ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اس انجمن میں آپ صاحبان میں سے بھی کچھ شریک ہوں۔ مگر باوجود جناب مولانا مولوی عبدالکریم صاحب (مرزائی آنجہانی) کی کوشش کے حضور (مرزاقادیانی آنجہانی) نے انکار ہی فرمایا۔ پھر سرسید صاحب کے چندہ مدرسہ مانگنے کا واقعہ تو مشہور ہی ہے۔ یہاں تک کہ وہ ایک روپیہ تک بھی مانگتے رہے۔ لیکن حضور (مرزاقادیانی آنجہانی) نے شرکت سے انکار ہی فرمایا۔ حالانکہ (مرزاقادیانی نے) خود مدرسہ انگریزی جاری کیا ہوا تھا۔‘‘