ہیں۔ ان سے رشتہ ناتہ اور موالات حرام ہے۔ فرق اس قدر ہے کہ اس فتویٰ کے مخاطب عامہ اہل اسلام تھے اور موجودہ مطالبہ حکومت پاکستان سے کیا جارہا ہے کہ وہ اس متفقہ فتویٰ بلکہ خود مرزائیوں کے مسلمات کے مطابق بھی ان کو آئینی طور پر مسلمانوں سے جداگانہ اقلیت قرار دے کر مسلمانوں کو مطمئن کرے۔ اس مطالبہ پر مرزائی صاحبان کو بگڑنا نہ چاہئے تھا۔ اس لئے کہ ان کو اور ان کے مقتداء (مرزاقادیانی آنجہانی) کو یہ تسلیم ہے کہ ان کا اور مسلمانوں کا دین، ایمان اور اسلام جدا ہے اور سب مسلمان بوجہ مرزاقادیانی آنجہانی کو نہ ماننے کے کافر اور خارج ازاسلام ہیں۔ یہ امر بھی مرزائی لٹریچر سے ثابت ہے۔ مرزائی صاحبان کو مسلمانوں کے مطالبہ کی تائید کرنی چاہئے تھی۔ لیکن وہ اس مطالبہ کی مخالفت محض اس لئے کر رہے ہیں کہ یہ مطالبہ اگر منظور ہوگیا تو انہیں ان بیشمار حقوق ملازمت وغیرہ سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ جن پر وہ ’’مسلمان‘‘ کے نام سے غاصبانہ قبضہ جمائے بیٹھے ہیں۔
ثابت ہوا کہ مسلمانوں کے اس مطالبہ کی مخالفت میں مرزائی صاحبان مخلص نہیں ہیں۔ بلکہ یہ مخالفت دنیاوی اغراض کی بناء پر ہے اس لئے اس باب میں مرزائی صاحبان کو مخاطب کرنا بے سود معلوم ہوتا ہے۔ البتہ ارباب اقتدار اور ان مسلمانوں کو جو مرزائی لٹریچر سے بے خبری کے باعث مسلمانوں کے مطالبہ کو تسلیم کرنے میں متأمل ہیں۔ صورتحال سے روشناس کرانا ضروری ہے۔ اسی نقطۂ نظر سے یہ مختصر مضمون ہدیۂ ناظرین کرام کیا جارہا ہے۔
میں نے اس مضمون میں اس حقیقت کے صرف چند گوشوں کو مرزائی لٹریچر ہی کی روشنی میں بے نقاب کیا ہے کہ اسلام اور ملت اسلامیہ سے مرزائی امت کو کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لئے آئینی طور پر بھی ان کو جدا ہی رکھنا چاہئے۔ میں نے اپنی طرف سے زیادہ حاشیہ آرائی کی ضرورت نہیں سمجھی۔ حساس مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اس مضمون کو دستور ساز اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں اور ڈسٹرکٹ بورڈ اور میونسپل کمیٹیوں کے ممبروں اور سیاسی لیڈروں اور دیگر ذی اثر مسلمانوں کے ہاتھوں میں پہنچائیں تاکہ وہ اس مطالبہ کی معقولیت کو سمجھ سکیں اور ہمارا فرض ادا ہو جائے۔
میں نے یہ مضمون بہت عجلت میں لکھ کر کاتب کے حوالے کر دیا ہے۔ حوالوں کی زیادہ جانچ پڑتال کا موقع نہیں ملا۔ اس لئے اگر کہیں کوئی غلطی ہوگئی ہو تو مجھے مطلع کر کے ممنون فرمایا جاوے۔ غلطی کی اصلاح طبع دوم میں انشاء اﷲ کر دی جائے گی۔مسلمانوں سے بنیادی اختلافات
مرزاغلام احمد قادیانی آنجہانی کے بیٹے اور خلیفہ دوم مرزامحمود ایں جہانی نے اپنے ایک