انتظام ہے؟ اگر اسے کوئی لوٹ یا مار دے تو کوئی اس کو چھڑانے والا بھی ہوسکتا ہے؟ جب کہ تمام آبادی مرزائیوں کی ہے اور اگر تھانے میں رپٹ درج کرے تو کیا اس کی رپٹ درج ہوسکتی ہے؟ جب کہ وہ خاص مرزائی دارالخلافہ کا تھا ہے اور رپٹ درج ہونے کے بعد کیا اسے کوئی گواہ بھی میسر آسکتا ہے؟
۳… اگر کوئی مرزائی جو ربوہ کا باشندہ ہے اپنی خوشی سے مرزائیت سے توبہ کرتا ہے اور دوبارہ اسلام میں داخل ہونا چاہتا ہے۔ تو کیا وہ اپنی جائیداد پر قابض رہ سکتا ہے اورکیا اس کے لئے بائیکاٹ اور مقاطعہ کے ہوتے ہوئے زندگی گذارنا ممکن ہوسکتا ہے؟ خصوصاً ایسے حالات میں جب الفضل ۱۱؍جنوری ۱۹۵۲ء میں مسلمانوں کو برعب مرزائی بنانے کی سکیم منظر عام پر آچکی ہے۔
یہ سوال بطور نمونہ پیش کئے گئے ہیں جو ہر مسلمان کے دل میں اسی مخصوص آبادی اور مخصوص ماحول کے متعلق پیدا ہوتے ہیں۔ اسی قسم کے اور بہت سے شبہات ہر پاکستانی کے دل میں پیدا ہوتے ہیں۔ اسی بناء پر تو مجلس احرار چیخ وپکار کر رہی ہے کہ مسلمان جاگیں اور ان خفیہ ریشہ دوانیوں کا نوٹس لیں۔ کیا یہ فرض صرف مجلس احرار اسلام کا ہے؟ مسلم لیگ اور دوسرے مسلمانوں پر یہ ذمہ داری عائد نہیں ہوتی؟
مرزائی فوج
جس طرح مرزائیوں نے اپنا دارالخلافہ الگ بنالیا ہے۔ اسی طرح مرزائیوں نے اپنی ایک فوج بنالی ہے۔ اس کا نام رکھا ہے۔ خدام الاحمدیہ اس کی تفصیل کے لئے مطالعہ فرماویں۔
(الفضل مورخہ ۱۹؍ستمبر ۱۹۵۱ئ)
(خدام الاحمدیہ کا ایک عہد) خلاصہ درج ذیل ہے۔
۱… خدام الاحمدیہ تحریک جدید کی فوج ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ لوگ زیادہ سے زیادہ اس فوج میں داخل ہوں گے۔
۲… جو شخص خدام الاحمدیہ میں بھرتی ہو جائے اس سے عہد لیا جاتا ہے جس کا ایک دفعہ یہ ہے کہ میں ہر احمدی کو اس میں شریک ہونے کی تحریک کروں گا۔ (سرکاری ملازم بھی اس میں دخل ہوںگئے)