بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جس قوت اور طاقت نے مرزا غلام احمد قادیانی کو نبوت بخشی تھی۔ اسی نے ہی مرزا غلام احمد قادیانی کے لڑکے کو خلافت بھی عطا کی ہے اور بڑے مرزا قادیانی خودہی اس خلافت کی داغ بیل رکھ گئے تھے۔ چنانچہ یہ چھوٹے مرزا انہی الہامات کو اپنی جماعت کے آگے پیش کر کے اپنی خلافت پر استدلال فرماتے ہیں۔ چنانچہ مرزاقادیانی کتاب الوصیت سے حوالہ نقل کو لکھتے ہیں: ’’پس خلافت دراصل نبوت کے نظام کے کا تتمہ ہے جسے انگریزی میں کرالوری یا سپلیمنٹ کہتے ہیں۔ کیونکہ جیسا کہ مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ کسی نبوت کا کام خلافت کے بغیر تکمیل کو نہیں پہنچتا۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۲۵؍دسمبر ۱۹۵۱ئ)
ہم اپنے ناظرین کو آگاہ کرتے ہیں کہ غلام احمد قادیانی کی نبوت کا مقصد کیا تھا۔
(تریاق القلوب ص۱۵، خزائن ج۱۵ ص۱۵۵) میں مرزاقادیانی نے لکھا ہے: ’’میری عمر کا اکثر حصہ اس سلطنت (انگریزی حکومت) کی تائید اور حمایت میں گذرا ہے اور میں نے ممانعت جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارہ میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں اور اشتہار شائع کئے ہیں۔ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں بھر سکتی ہیں۔ میں نے ایسی کتابوں کو تمام ممالک عرب اور مصر اور شام اور کابل اور روم تک پہنچایا ہے۔ میری ہمیشہ کوشش رہی کہ مسلمان اس سلطنت کے سچے خیرخواہ ہو جائیں۔‘‘
ظاہر ہے کہ اس برطانوی قسم کی نبوت کے مقاصد کی تکمیل بھی برطانوی خلافت ہی کر سکتی ہے۔ جب تک برطانیہ عظمیٰ کی منظوری حاصل نہ ہو۔ موجودہ مرزاقادیانی کے معزول ہونے کا سوال پیداہی نہیں ہوتا۔ عزل خلافت کی بحثیں بیکار ہیں۔ لیکن پھر بھی مرزاقادیانی کی ہمت کی داد دیجئے کہ اپنے تنقید کرنے والوں کو خوب ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اگر خلیفہ اسلام میں معزول ہوسکتا ہے تو یقینا حضرت علیؓ مجرم ہیں۔ کیونکہ ان کی اپنی جماعت کے ایک حصہ نے کہہ دیا تھا کہ ہم آپ کو خلافت سے معزول سمجھتے ہیں۔ لیکن حضر۱؎ت علیؓ نے تلوار میان سے نکال لی اور ہزارہا خارجیوں کو قتل کر کے رکھ دیا۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۲۵؍دسمبر ۱۹۵۱ئ)
۱؎ یہ حضرت علیؓ پر صریح بہتان ہے کہ انہوں نے خوارج سے اس لئے لڑائی کی تھی کہ انہوں نے حضرت علیؓ سے معزولیت کا مطالبہ کیا تھا۔ بلکہ وہ مرتد ہوکر اسلام سے خارج ہوچکے تھے۔ اس لئے قتال کیاگیا۔