ذلت کے سیاہ داغ ان کے منحوس چہروں کو بندروں اور سورؤں کی طرح کردیں گے۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۵۳، خزائن ج۱۱ ص۳۳۷)
ناظرین! اب آپ ہی انصاف سے فرمائیں کہ جو اس آزادی اور بے باکی سے گالیاں دینے کی عادت رکھتا ہو تو پھر اسے اس پستی سے نکال کر بلندیٔ نبوت تک لے جانا کتنی بڑی غلطی ہے۔
اب ہم آپ کو اس درسگاہ کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔ جہاں سے مرزاقادیانی نے تعلیم حاصل کر کے اپنی امت کو مائل کیا اور جو اپنے استادوں کی تصانیف سے ماخوذ کیا۔ جس میں ہر قسم کی اغلاط ان کی تحریروں میں موجود ہے۔ وہ ملاحظہ فرما کر عبرت حاصل کریں۔
ڈاکٹر ایچ۔ڈی گرس رولڈ نے لکھا کہ: ’’جہاد سے دست بردار ہونا اور جس سلطنت کے زیرسایہ ہوں۔ اس کے حق میں وفاداری اور خیرخواہی کا اظہار کرنا وغیرہ ایسے امور ہیں۔ جن میں ایران کے موجودہ بابی اور ہندوستان کے مرزائی حد درجہ کی مشابہت اور موافقت رکھتے ہیں۔ بلکہ یہ مشابہت اس حد تک بڑھی ہوئی ہے کہ خواہ مخواہ بھی خیال پیدا ہوتا ہے کہ دوسرا فرقہ پہلے کی نقل ہے۔‘‘ (مرزاغلام احمد قادیانی مؤلفہ ڈاکٹر گرس رولڈ ص۴۳)
ذیل میں چند اقتباس پیش کئے جاتے ہیں۔ جس سے معلوم ہوگا کہ مرزائیت اور بابیت ایک ہی درخت کی دوشاخیں ہیں۔
مرزاعلی محمد باب
مرزاغلام احمد قادیانی
(۱)ملا محمد حسین بشرویہ نے کہا کہ مشرق اور مغرب کے تمام سلاطین ہمارے سامنے خاضع وسربسجود ہوں گے۔ (نقط الکاف ص۱۶۲)
(۱)مرزاقادیانی نے ایک الہام کی رو سے پیش گوئی کی کہ: ’’بادشاہ میرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۸۷، خزائن ج۲۱ ص۱۱۴)
(۲)’’کتاب بیان میں پہلے سے وہ احکام ودستور العمل درج کر دئیے گئے ہیں۔ جن پر مستقبل کی بابی سلطنت کا عمل درآمد ہوگا اور بیان میں صریحاً مذکور ہے کہ وہ وقت ضرور آئے گا کہ سارا ایران بابی ہو جائے گا اور وہاں کے
(۲)’’مسیح موعود نے کہا کہ ساری دنیا میں احمدیت ہی احمدیت پھیل جائے گی۔‘‘
(الفضل مورخہ ۲۰؍اگست ۱۹۲۴ئ)
مرزامحمود احمد نے کہا۔ ’’مجھے تو ان غیر احمدی مولویوں پر رحم آتا ہے۔ جب میں خیال کرتا