ماتم کناں ہے۔ غرض یہاں آپ کی تنخواہ بہت کم تھی اور گزارا نہ ہوتا تھا۔ حب جاہ کی امنگیں تھیں اور ترقی کے ولولے مختاری کا امتحان دیا، ناکام رہے۔ آخر جب دنیا نے ساتھ نہ دیا تو دین نے دستگیری کی۔ خدا نے ہاتھ پکڑ لیا۔ آپ کا بھائی مرزا امام الدین ’’خاکروبوں‘‘ کا پیربن بیٹھا اور بڑی کامیابی حاصل کی۔ خاکروب اسے اٹھائے اٹھائے پھرتے تھے۱؎۔
اور آپ نے ایک اور سلسلہ شروع کر دیا۔ پہلے تو ایک طویل وعریض اشتہار دیا کہ ہم حمایت دین متین میں ایک کتاب تصنیف کر رہے ہیں۔ خریدار روپیہ پیشگی ارسال کر دیں۔ یہ آپ کی شہرت کی ابتداء تھی اور انتہاء تو وہ ہوئی جس کے اظہار کے لئے ہم نے یہ رسالہ ترتیب دیا ہے۔ آپ ملہم بنے، محدث بنے، نبوت کا دعویٰ کیا۔ فرمایا کہ میں محمد واحمد ہوں۔ آدم ونوح ہوں، مثیل موسیٰ وابراہیم ہوں، عیسائیوں کے لئے مسیح موعود بنے۔ مسلمانوں کے لئے مہدی معہود اور ہنود کے لئے کرشن۔ پھر کچھ اور مدارج عالیہ طے کئے۔ خطبہ الہامیہ میں اپنی شان یوں رقم فرمائی ہے کہ: ’’مجھے کسی کے ساتھ قیاس مت کرو اور نہ کسی دوسرے کو میرے ساتھ… میں مغز ہوں۔ جس کے ساتھ چھلکا نہیں اور روح ہوں۔ جس کے ساتھ جسم نہیں اور سورج ہوں جس کو دشمنی کے کینہ کا دھواں چھپا نہیں سکتا اور کوئی ایسا شخص تلاش کرو۔ جو میری مانند ہو۔ ہرگز نہیں پاؤ گے… میرا قدم ایک ایسے مینارہ پر ہے۔ جس پر ہر بلندی ختم کی گئی ہے۔‘‘
(خطبہ الہامیہ ص۱۹تا۳۵، خزائن ج۱۶ ص۵۲تا۷۰)
۱؎ صاحبزادہ الوالعزم والاتبار میوسیو مرزا محمود احمد خلیفۃ المسیح بالقابہ فرماتے ہیں کہ: ’’مرزانظام الدین اور مرزا امام الدین وغیرہ پرلے درجے کے بے دین دہریہ طبع لوگ تھے۔‘‘ (سیرت مہدی حصہ اوّل ص۱۱۴، روایت نمبر۱۲۶) پھر فرماتے ہیں کہ: ’’یہی امام الدین ڈاکوؤں میں پکڑا گیا۔‘‘ حضرت (مرزاغلام احمد قادیانی) فرماتے ہیں کہ ہمیں چھوڑ کر پھر امام الدین ادھر ادھر پھرتا رہا۔ آخر اس نے ایک قافلہ پر ڈاکہ مارا اور پکڑا گیا۔ مگر مقدمہ میں رہا ہوگیا۔ حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ اﷲتعالیٰ نے ہماری وجہ سے ہی اسے قید سے بچا لیا۔ ورنہ وہ خود کیسا ہی آدمی تھا۔ ہمارے مخالف یہی کہتے کہ ان کا چچا زاد بھائی جیل خانہ میں رہ چکا ہے۔ (سیرت مہدی ص۴۴ حصہ اوّل روایت۴۹) حضرت صاحب کی ذہنیت ملاحظہ ہو۔ فرماتے ہیں کہ: مخالف اب تو یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کا چچا زاد بھائی جیل خانہ میں رہ چکا ہے۔‘‘ مگر کیا کوئی یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ ان کا چچازاد بھائی ایک دہریہ طبع بے دین تھا اور ڈاکو تھا۔ حضرت سلامت کی نظر میں ڈاکہ زنی باعث طعن اور موجب تشنیع نہیں۔ بلکہ صرف سزا یابی سے ان پر الزام عائد ہوتا ہے۔ اﷲ اﷲ کیا بلند خیالی ہے؟