دینا ہوگا۔ اس لئے کہ داعی کو تو اپنی دعوت پر بہت زیادہ اعتماد کی ضرورت ہے۔ خصوصاً اس لئے کہ دعوت کا کام صرف قول سے نہیں ہوسکتا بلکہ عمل وکردار سب سے بڑا داعی ہے۔
اگر سلسلۂ انبیاء جاری رہے اور اعمال میں تبدیلیاں ہوتی رہیں تو عمل کی قوت تاثیر یقینا کم ہو جائے گی۔ جس سے دعوت پر بریک لگ جائے گی۔
ضلال ساذج کے مقابلہ میں تو یہ کمی زیادہ نمایاں ہوگی۔ مگر اس وقت خاص طور پر ظاہر ہوگی۔ جب کہ مقابلہ پر دور قدیم کی طرح سادی اور بسیط ضلالت نہ ہو۔ بلکہ دور جدید کی دجالی ضلالت ہو نیز دعوتوں اور نظریات کی کثرت اور ان کے بیک وقت اجتماع کی وجہ سے الجھاؤ اس کمی کو اور بھی زیادہ کر دیں گے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر سلسلۂ نبوت دور جدید میں بھی جاری رہتا تو شاید دین حق دنیا کے کسی ایک گوشہ گمنامی میں پڑا ہوتا۔ اس کی دعوت ٹھٹھر کر رہ جاتی اس کے پیرو زیادہ تر دجالی گمراہیوں کا شکار ہو جاتے اور اس کے مقابلہ سے عاجز ہوتے۔
خاتم النبیینﷺ اس معنی کے لحاظ سے بھی سراپا رحمت ہیں کہ ختم نبوت کا تاج کرامت زیب سرفرماکر امت کو ان مشکلات وخطرات سے محفوظ کر دیا۔ یہ حق تعالیٰ کا خاص فضلﷲ وکرم ہے جو امت محمدیہ علیہ الف الف تحیہ پر مبذول اور اس کے ساتھ مخصوص ہے۔ ’’وذلک فضل اﷲ یؤتیہ من یشاء واﷲ ذوالفضل العظیم (الحدید:۲۱)‘‘
نقلی مغالطے
پہلا مغالطہ
منکرین ختم نبوت کے عقلی مغالطوں کا تذکرہ پچھلے صفحات میں کیا جاچکا۔ اس سے ان کی کمزوری اور دلیل وبرہان سے تہی دستی روز روشن سے زیادہ عیاں ہو جاتی ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم ان کے نقلی مغالطوں کا نمونہ بھی پیش کر دیں تاکہ ناواقفیت کی وجہ سے کوئی ان کے مکروہ فریب کا شکار ہو کر گمراہ نہ ہو۔ ’’اﷲ یجتبی الیہ من یشاء ویہدی الیہ من ینیب (الشوریٰ:۱۳)‘‘
ظلی وبروزی
عقیدہ ختم نبوت قرآن وحدیث سے اس قدر واضح طور پر ثابت ہے کہ معاندین منکرین بھی اس کے سامنے ’’فبہت الذی کفر‘‘ کے مصداق بن جاتے ہیں اور لب کشائی کی جرأت نہیں کر سکتے کہ قرآن وحدیث میں عقیدہ ختم نبوت کو بیان نہیں کیاگیا ہے۔ بلکہ تاویل کی