’’والذین یؤمنون بما انزل الیک وما انزل من قبلک (بقر:۴)‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرتﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔ ورنہ یہ حکم ضرور ہوتا کہ آئندہ آنے والے نبی پر بھی ضرور ایمان لانا ہوگا۔ اس لئے انبیاء سابقین علیہم الصلوٰۃ والسلام میں سے ہر نبی نے اپنے مابعد آنے والے نبی پر ایمان لانے اور تصدیق وتائید کی سخت تاکید فرمائی ہے۔ اگر آنحضرتﷺ کے بعد کوئی اور شخص ہوتا یا ہونے کا امکان ہوتا تو ضرور نبی کریمﷺ بھی حکم فرماتے۔
بجائے اس کے آنحضرتﷺ نے بار بار تاکید فرمائی کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت۔
۳… تیسری جگہ قرآن شریف میں ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام کو اﷲتعالیٰ نے مخاطب کر کے فرمایا کہ: ’’واذ اخذ اﷲ میثاق النبیین لما اٰتیتکم من کتاب وحکمۃ ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم لتؤمنن بہ ولتنصرنہ (آل عمران:۸۱)‘‘ {میں جب لوگوں کو کتاب دوں اور حکمت اور تم نبوۃ کے منصب پر فائز ہو تو اس کے بعد ایک نبی آئے گا جو تمام پہلی چیزوں کی تصدیق کرنے والا ہوگا۔ تم لوگ اس کو ماننا اور اس پر ایمان لانا۔}
اس آیت میں دو لفظ قابل غور ہیں۔ ایک ’’میثاق النبیین‘‘ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام انبیاء کو یہ خطاب ہے۔ دوسرا لفظ ’’ثم جاء کم‘‘ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تم سب کے بعد ایک نبی آئے گا اور وہ تمام پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہوگا۔ وہ بالاتفاق سید محمدﷺ ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ حضرت محمدﷺ سب نبیوں کے بعد آئے ہیں۔ پس اگر مرزاقادیانی بھی نبی ہوئے تو حضرت محمدﷺ سب نبیوں کے بعد نہ آئے اور قرآن کی تکذیب لازم آئے گی۔ چنانچہ امام ابن کثیر نے (ج۱ ص۲۴۵) میں اور محمد علی مرزائی لاہوری نے (ترجمہ قرآن ج۱ ص۳۵۲) میں یہی معنی بیان کئے ہیں۔
احادیث متعلقہ ختم النبوت
۱… ’’عن سعد بن ابی وقاصؓ قال قال رسول اﷲﷺ لعلیؓ انت منی بمنزلۃ ہارون موسیٰ الا انہ لا نبی بعدی (بخاری ج۲ ص۶۳۳، باب غزوہ تبوک وھی غزوہ العسرۃ)‘‘ {سعد بن ابی وقاصؓ سے مروی ہے کہ آنحضرتﷺ نے حضرت علیؓ کو فرمایا کہ تو مجھ سے ہارون کی طرح ہے۔ موسیٰ سے مگر میرے بعد کوئی بھی نہیں ہوگا۔}