آیت مقدسہ میں جس تحریف معنوی کی کوشش کی ہے۔ اس بناء پر ان سے سوال ہوسکتا ہے کہ کیا تمہارے نزدیک ہر زمانہ میں کسی نبی کی موجودگی ضروری ہے؟ تمہاری تشریح سے تو یہ بات بداہتہً لازم آتی ہے اور یہ ایسی چیز ہے جس سے قائل تم بھی نہیں ہوسکتے اور اگر ازراہ بے حیائی اور ڈھٹائی تم قائل بھی ہو جاؤ تو بداہت تمہاری تکذیب کرے گی۔ اس وقت سوال یہ ہوگا کہ بتاؤ اس وقت کون نبی موجود ہے؟ اور آنحضورﷺ کے بعد فلاں فلاں صدیوں میں کون نبی رہا؟ ہرزمانہ میں کسی نہ کسی نبی کی بعثت وموجودگی ثابت کرو اور یہ وہ چیز ہے جسے تمہارے اولین وآخرین مل کر بھی ثابت نہیں کر سکتے۔ بلکہ اس دعویٰ کی جرأت بھی صرف اس شخص کو ہوسکتی ہے جو بے حیائی کے سب ریکارڈ توڑ چکا ہو۔ دونوں باتوں میں لزوم بالکل واضح حقیقت ہے۔ اگر آیت سے یہ نکلتا ہے کہ سلسلہ نبوت ہمیشہ جاری رہے گا تو پھر کسی زمانہ کی تخصیص کے کیا معنی؟ اور کس دلیل کی بناء پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ فلاں زمانہ میں نبی مبعوث ہوئے اور فلاں زمانہ میں نہیں مبعوث ہوئے؟ یا ایک زمانہ میں مبعوث ہونا چاہئے اور دوسرے میں نہ ہونا چاہئے؟
یہ غلط نتیجہ محض آیت کی اس غلط اور بے اصل تشریح کی وجہ سے نکلا جو ان منکرین نے اختراع کی ہے۔ جس کے صریح معنی یہ ہیں کہ ان کی تشریح بالکل غلط اور لغو ہے۔
تیسرا مغالطہ
منکرین ختم نبوت کا گروہ کج فہمی کے ساتھ بے حیائی، خیانت اور دروغ بافی میں بھی اپنی نظیر آپ ہے۔ اﷲتعالیٰ اور رسول اﷲﷺ پر افتراء کرنے اور ناواقفوں کو دجل وفریب میں مبتلا کر کے گمراہ کرنے میں انہیں ذرہ برابر بھی باک نہیں ہوتی۔ نہ اس قسم کے افعال شنیعہ کے ارتکاب میں انہیں شرم آتی ہے۔ اس کا ایک نمونہ مثیل مسیح کا مہمل ولغو نظریہ یہ بھی ہے جسے یہ لوگ دوسروں کی آنکھوں میں دھول کی طرح جھونکنے کی سعی لاحاصل کیا کرتے ہیں۔
اس غلط اور مفتریانہ نظریہ میں ان لوگوں نے نزول مسیح علیہ السلام کے عقیدے سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی ناکام کوشش کی ہے اور دلیل وبرہان سے اپنی تہی دستی کی توثیق مزید کر دی۔
صفحات ماسبق میں گذر چکا ہے کہ اہل سنت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ آخر زمانہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے اور مسیح دجال کو قتل کر کے دین اسلام پھیلائی گئے۔
ان دشمنان دین نے اس عقیدے کا تغلب (Expoloitation) کر لیا اور اس میں تحریف کر کے فوراً مسیح کی تفسیر مثیل مسیح کے ساتھ کر ڈالی۔ ان کے نزدیک احادیث میں حضرت