یہ ان مصائب اور آفات وبلیات ارضی وسماوی کی ایک غیر مکمل فہرست اور ہلاکت وبربادی کا ناتمام گوشوارہ ہے جو مرزاقادیانی کے فیض نبوت کی بدولت روئے زمین پر ظاہر ہوئیں۔ کاش تقدس مآب ایک ایسی طویل مگر صحیح فہرست اپنے اعجاز وکرامات کی بھی شائع کر دیتے۔ جس سے ظاہر ہوتا کہ فلاں تباہی سے بچ گیا۔ اس نے مصیبت سے امان پائی۔ وہ مردہ تھا جی اٹھا۔ اس پر سے آفت ٹل گئی۔ اسے خدا نے برکت دی وغیرہ۔ مگر یہ نشان تو سچے مسیح سے ظاہر ہوئے تھے۔ مسیح دجال کے نشان بس موت ہے۔ وبائیں اور زلزلے ہیں۔ مخالف کے لئے جو انا موت ہے۔ ذلتیں ہیں۔ رسوائیاں ہیں اور گرفتاریاں ہیں۔ مرزاقادیانی کے ایک پرانے مرید اور گھر کے بھیدی ڈاکٹر عبدالحکیم صاحب کیا خوب فرماتے ہیں۔
’’وبائیں اور حادثات خواہ ہند میں ہوںیا اٹلی میں۔ فارموسا میں ہوں یا سان فرانسسکو میں۔ خواہ ان کی حضرت کو خبر بھی ہو یا نہ ہو۔ اپنی تکذیب ہی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ خداوند عالم کو ایک باؤلا سمجھ لیاہے جو جوش حمایت میں از خود رفتہ ہوکر مرزاقادیانی کی خاطر دنیاکو تباہ کرتا پھرتا ہے اور اتنا بھی نہیں سوچتا کہ اس کے اصل مکذب اور دشمن کون ہیں۔ دنیا میں کہیں تباہی آئے تو فوراً مرزاقادیانی اور ان کے مرید بغلیں بجاتے اور عید مناتے ہیں کہ یہ ہمارے واسطے ایک نشان ظاہر ہوا ہے اور ہر وقت اس ہوس اور انتظار میں ہیں کہ دنیا تباہ ہو۔ فلاں ہلاک ہو۔ جس قدر زیادہ تباہی آئے اسی قدر ان کے گھر عید ہو۔‘‘ (تجلی مئی ۱۹۰۶ئ)
باب نمبر:۱۷ … مرزاقادیانی کی پیش گوئیاں
یوں تو مرزاقادیانی کی علماء نے خوب جانچ پڑتال کی۔ قرآن کی محک پر انہیں کسا اور زرقلب کی طرح… پھینک دیا۔ حدیث کی کسوٹی پر رگڑا اور مس خام پایا۔ بعضوں نے عقل سلیم سے فتویٰ چاہا کہ اس قماش کا آدمی نبی ہوسکتا ہے اور جواب نفی میں ملا۔ غرض ہر امتحان میں وہ ناکام نکلے اور ہمیں افسوس ہے کہ ؎
دم باز حیلہ ساز دغا باز خود غرض
کیا کیا تمہارے نام میری جان نکل گئے
لیکن ہماری نظر میں انصاف یہ ہے کہ مرزاقادیانی کو انہیں کے مقرر کردہ میعار سے پرکھا جائے اور اس کے بعد اگر ضرورت ہو تو کوئی اور معیار بھی قائم کر لیا جائے۔ مرزاقادیانی