اکملت لکم دینکم (مائدہ:۳)‘‘ یہی وجہ ہے آپ نے اپنی زبان ترجمان حق سے ’’لا نبی بعدی ولا امۃ بعدکم (کنزالعمال ج۱۵ ص۹۴۷، حدیث نمبر۴۳۶۳۷)‘‘ کا اعلان فرمایا اور باری عزاسمہ نے ’’ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین (احزاب:۴۰)‘‘ کے اعلان سے دنیا کو متنبہ فرمایا اور واضح الفاظ میں فرمایا کہ اگر لادینی سیاست کے جبرواستبداد، انسانیت کش بہیمیت، قیامت خیز معرکہائے جنگ وجدال، خطرناک اور مہیب اسلحہ جات، انسانی لاشوں کے انبار، بستیوں کی عالمگیر تباہی وویرانی، انسانی خون کا سیلاب، عفت وفرشتگی کی عصمت دری، اخلاق وشرافت کی پامالی اور ہمہ گیر شور وشر سے دنیا کو فلاح ونجات مل سکتی ہے تو صرف رحمتہ اللعالمین کے دامن فیض سے وابستہ ہوکر ہی مل سکتی ہے۔ ’’وما ارسلنک الا رحمۃ اللعلمین (انبیائ:۱۰۷)‘‘
عزیزیکہ از درگہش سر بتافت
بہر درکہ شد ہیچ عزت نیافت
متوازی نبوت کا مقصد قیام
انگریز قوم کا محبوب ترین مشغلہ قتل وسفاکی، غصب ونہب، شراب نوشی وعصمت فروشی، بددیانتی وبدمعاملگی، استبداد واستعباد تھا اور ان کی ریاست وقیادت جو حکومت الٰہیہ میں ایک کھلی ہوئی بغاوت تھی۔
حضورﷺ کے لائے ہوئے اسلام سے خطرہ میں پڑ چکی تھی جن کے مذہبی مزعومات باطلہ کی زنجیریں حقانیت اسلام کی چمک دار تلوار کے پے در پے ضربات سے ایک ایک کر کے کٹ چکی تھیں۔ وقائع ماضیہ کے نتائج سامنے رکھ کر مستقبل انہیں بہت بھیانک نظر آرہا تھا۔ یہودونصاریٰ دو قومیں ہیں جو چودہ سو برس سے اسلام سے برسرپیکار ہیں۔ اسلام ومسلمانوں کے استیصال میں جب ان کے جوروستم کے تمام حیلے ناکام ہوئے تو انہوں نے مسلمانوں کے مقابلہ میں بعض نام نہاد مسلمانوں کو اپنی کام جوئیوں کا آلہ کار بنا کر اسلام کی ملی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لئے کسی کو جعفر بنایا اور کسی کو میر صادق ان کی ستم ظریفیوں نے یہاں تک ترقی کی کہ کعبۃ اﷲ کے اڑوس پڑوس میں شریف حسین مکی جیسے غداروں کو اپنے مقصد براری کے لئے استعمال کیا۔ جب ان کا یہ دجل وفریب بھی اسلام کے استیصال کا سبب نہ بن سکا تو نظام اسلام بدلنے کے لئے ایسی ایسی ناپاک کوششیں شروع کر دیں کہ جن سے مقاصد دین قویم کی صراط مستقیم میں ایسے اشتباہ اور الجھاؤ پیدا ہو جائیں کہ اسلام کا حقیقی تصور دھندلا ہو جائے۔