لیکن مرزائی امت نے اس پر بھی قناعت نہ کی۔ بلکہ اپنے عقائد کفریہ کی ترویج اور مسلمانوں کو ارتداد کی طرف دعوت اور اس کے لئے مخالفانہ لٹریچر کی اشاعت عقائد کفریہ کی تبلیغ کے لئے جلسے اور کانفرنسیں کرنا شروع کر دیں اور حکومت پاکستان کے اثرات ترویج قادیانیت کے لئے استعمال کرنے لگے تو اب پاکستانی مسلمان کے سامنے یہ سوال آگیا کہ پاکستان اسلام کے لئے بنا اور اسلام ہی کے ساتھ اس کی بقاء واستحکام ہے۔ اگر یہی بنیاد منہدم ہوتی ہے تو پاکستان ایک بے معنی لفظ اور بے روح جسم ہوگا۔ اس لئے قادیانیوں کی مسلسل تبلیغی کوششوں نے انہیں اس کے رد عمل پر مجبور کر دیا۔ جس کے لئے ملک میں مختلف مقامات پر عام جلسے بھی ہوئے اور اس کی ضرورت بھی ازسرنو پیدا ہوگئی کہ مرزائی امت کے دجل وفریب، مرزاقادیانی اور مرزائیوں کی صحیح تصویر اور ان کے اعمال ناموں سے مسلمانوں کو واقف کیا جائے کہ وہ اس ارتداد کے شکار نہ ہوں۔ کیونکہ پچھلا لٹریچر بلکہ عام کتب خانے انقلاب ۱۹۴۷ء کی نذر ہوچکے تھے۔ اب کسی لکھنے والے کو مواد تصنیف جمع کرنا بھی آسان نہ تھا۔
فتنہ مرزائیت
(مصنفہ مولانا محمد امیرالزماں خاں صاحب کشمیری) اﷲتعالیٰ جزائے خیر عطاء فرمائے۔ ہمارے محب محترم مولانا امیرالزماں خاں صاحب کشمیری مہتمم مدرسہ اسلامیہ فاروقی مسجد کراچی کو کہ انہوں نے وقت کی ضرورت کا احساس فرمایا اور اپنے پیش نظر رسالے میں مرزاقادیانی اور مرزائی امت کی پوری حقیقت خود انہی کے الفاظ میں انہی کی زبان سے کھول کر مسلمانوں کے لئے پیش کر دی۔ اس کتاب میں ان کا اپنا کوئی مضمون نہیں جو کچھ ہے۔ مرزاقادیانی اور ان کے خلفاء کے اقوال ومضامین ہیں۔ احقر نے اس رسالہ کو مختلف مقامات سے دیکھا۔ حوالے مستند اور مآخذ کو صحیح پایا۔ مسلمانوں سے میری درخواست ہے کہ قادیانیوں نے اپنی سیہ کاریوں پر پردہ ڈالنے کے لئے جن علمی مسائل میں مسلمانوں کو الجھانے کی طرح ڈالی ہے۔ ان کے کید سے باخبر رہتے ہوئے ان مسائل میں الجھنے سے پہلے اس کتاب کو ایک مرتبہ پڑھ لیں تو مجھے امید ہے کہ پھر کسی بحث ومباحثہ کی ضرورت باقی نہ رہے گی۔ بلکہ اگر کچھ بھی عقل وانصاف اور غیرت اسلامی ہو تو مرزائی بھی اس کے پڑھنے کے بعد اپنی غلطی محسوس کریںگے۔ اﷲتعالیٰ مؤلف سلمہ کو جزائے خیر عطاء فرمائیں اور اخلاص کامل کے ساتھ دین کی مزید خدمات کے لئے موفق فرمائیں۔ ’’واﷲ المستعان وعلیہ التکلان‘‘
بندہ محمد شفیع عفا اﷲ عنہ کراچی، ۲۱؍شوال ۱۳۷۱ھ