حضورﷺ کے اس ارشاد سے ثابت ہوگیا کہ اگر حضورﷺ کے بعد کوئی نبی ہوتا بھی تو حضرت عمر ابن الخطابؓ ہوتا۔ اگر عمر ابن خطابؓ نبی نہیں بن سکتے تو قیامت تک دوسرا کوئی بھی نبی نہیں ہوسکتا۔ گویا اجرائے نبوت کو سرکار دوعالمﷺ نے حضرت عمرفاروقؓ کے وجود میں مرکوز کردیا کہ اگر ہوتا تو صرف یہی ہوتا۔ ورنہ قیامت تک دوسرا کوئی بھی نہیں ہوسکتا۔ اگر وہ نہیں تو کوئی بھی نہیں۔
اب صرف ایک امکان اجرائے نبوت کا باقی رہ جاتا ہے کہ نبی ہمیشہ نبی کی اولاد میں سے ہی پیدا ہوتا ہے۔ مگر بعض اوقات ایسا بھی تو ہوتا ہے کہ ایک نبی اپنے بھائی کے لئے سفارش کرے تو اﷲتعالیٰ اس کے بھائی کو بھی نبی بنادیتا ہے۔ جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اﷲتعالیٰ سے دعاء مانگ کر حضرت ہارون علیہ السلام کو نبی بنوا ہی دیا تھا۔ اگرچہ نبی کریمﷺ کی اولاد تو اﷲ تعالیٰ نے بچپن ہی میں چھین لی تھی تو پھر حضورﷺ اﷲتعالیٰ سے دعاء مانگ کر حضرت علیؓ کو تو نبی بنوا سکتے تھے۔ تو اس امکان کا سد باب بھی اﷲتعالیٰ نے خود ہی رسول کریمﷺ کے ذریعہ اس طرح کرادیا کہ:
جب حضرت نبی کریمﷺ جنگ تبوک پر جارہے تھے تو حضرت علیؓ کو عورتوں اور بچوں کی نگرانی کے لئے مدینہ پاک میں رہنے دیا۔ منافقین مدینہ نے حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کو بزدلی کا طعنہ دیا تو حضرت علیؓ رسول اﷲﷺ کے پیچھے دوڑ کر گئے اور منافقین کا طعنہ سنا کر حضورﷺ کی خدمت اقدس میں جنگ تبوک میں ساتھ چلنے کی درخواست کی۔ مگر حضورﷺ نے فرمایا: ’’یا علی انت منی بمنزلۃ ہارون من موسیٰ الا انہ لا نبی بعدی (مسلم ج۲ ص۲۷۸)‘‘ {اے علیؓ تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام سے ہارون علیہ السلام تھے۔ مگر یہ پکی بات ہے کہ میرے بعد کسی قسم کا نبی نہیں بن سکتا۔} یعنی نہ میری زندگی میں اور نہ ہی میرے بعد۔ اگر یہ حدیث نہ ہوتی تو شیعہ لوگ ہرگز ہرگز حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کو نبی بنانے سے نہ چونکتے۔ جب کہ وہ حضرت علیؓ کا درجہ سوائے نبی کریمﷺ کے باقی تمام نبیوں سے بھی افضل سمجھتے ہیں تو ان کو نبی ماننے میں کون سی چیز روک سکتی تھی۔ پس مندرجہ بالا حدیث ہی تو ہے جو نہ صرف حضرت علیؓ کو نبی بنانے سے روکتی ہے۔ بلکہ مسئلہ ختم نبوت پر بھی شیعہ حضرات کو اہل سنت والجماعت کے دوش بدوش کھڑا کر دیتی ہے۔
مسئلہ ختم نبوت اور صحابہ کرامؓ کا کردار
رسول کریمﷺ کے وصال کے بعد بیک وقت تین شخصیتوں نے نبوت کا دعویٰ کر دیا۔