اتھ بٹاوے۔ سو یہ مسیح موعود (مرزائے قادیانی۔ ناقل) جو دنیا میں آیا تیرے ہی وجود کی برکت اور دلی نیک نیتی اور سچی ہمدردی کا ایک نتیجہ ہے۔ خدا نے تیرے عہد سلطنت میں دنیا کے دردمندوں کو یاد کیا اور آسمان سے اپنے مسیح کو بھیجا اور تیرے ہی ملک میں اور تیری ہی حدود میں پیدا ہوتا دنیا کے لئے یہ ایک گواہی ہو کہ تیری زمین کے سلسلۂ عدل نے آسمان کے سلسلۂ عدل کو اپنی طرف کھینچا اور تیرے رحم کے سلسلہ نے آسمان پر رحم کا سلسلہ بپا کیا۔‘‘
(ستارہ قیصرہ ص۸، خزائن ج۱۵ ص۱۱۸)
اب میں نے علی رؤس الاشہادیہ ثابت کر دیا ہے کہ مرزاقادیانی انگریزوں کے تنخواہ دار ملازم تھے اور کم ازکم ایک ہزار روپیہ ماہوار سے زیادہ تنخواہ پاتے تھے اور ان کی ڈیوٹی یہ تھی کہ غیور مسلمانوں کے اندر جذبۂ جہاد کو ختم کر کے انگریزوں کا سچا وفادار بنائیں اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ان کے فرائض میں شامل تھا کہ ان مسلمانوں کے خلاف خفیہ رپورٹ کرتے رہیں جو غیور مسلمان انگریزوں کے خلاف اپنے دلوں میں جذبۂ نفرت رکھتے تھے یا ان کے خلاف جہاد کرناجائز سمجھتے تھے۔ تاکہ ان بیچاروں کو ہمیشہ انگریزوں کی طرف سے قید وبند کی سزائیں بھی ملتی رہیں۔ ان کے دعاوی مجددیت، مہدویت، مسیحیت، نبوت اور رسالت کو پرکھتے ہیں تو مجبوراً ہمیں اس بات پر یقین کرنا پڑتا ہے کہ ان تمام دعاوی کو محض پردہ پوشی کے لئے ایک آڑ بنایا گیا تھا۔ تاکہ عوام ان کی خفیہ ڈیوٹی سے آگاہ ہوکر ان کے خلاف محاذ قائم نہ کریں اور تمام راز فاش ہوکر بدنامی کا موجب نہ بن جائیں۔ فاعتبروا یا اولی الابصار!
مسئلہ ختم نبوت اور مرزائیت
قبل اس کے کہ میں مسئلہ ختم نبوت کو قرآن کریم اور حدیث شریف کی رو سے پیش کروں۔ آپ کے ذہن میں ایک خاکہ بٹھا دیتا ہوں تاکہ اس کے بعد قرآن وحدیث کے دلائل آپ کو ذہن نشین ہونے میں دقت پیش نہ آئے۔
ہر ایک مسلمان اس بات سے واقف ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ابوالانبیاء تھے اور آپ کے دو ہی بیٹے تھے۔ ایک اسحاق علیہ السلام اور دوسرے اسماعیل علیہ السلام۔ جب اﷲتعالیٰ کا پہلا پہلا گھر خانۂ کعبہ تیار کر کے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام دونوں نے مل کر اﷲتعالیٰ کے حضور دعاء مانگی کہ: ’’ربنا وابعث فیہم رسولاً منہم یتلوا علیہم اٰیاتک ویعلمہم الکتاب والحکمۃ ویزکیہم انک انت العزیز الحکیم (البقرہ:۱۲۹)‘‘ {اے ہمارے رب ان مکہ کے رہنے والوں میں (صرف) ایک رسول مبعوث