اسلام کے اصول ومبادیات کو سمجھا ہے اور عقل سلیم سے بے بہرہ نہیں۔ یہ دعاوی ایک لمحہ کے لئے بھی تسلیم کر سکتا ہے۔ (اخبار زمیندار لاہور ۱۹۲۶ئ، بحوالہ ہفت روزہ حق مورخہ ۹؍جون ۱۹۵۲ئ)
قرآن اور مرزائیت
اس بارے میں دوہی صورتیں ہوسکتی ہیں۔ تیسری کوئی نہیں یا نجات کے لئے وہ عقائد کافی ہیں جو قرآن نے صاف صاف بتلادئیے ہیں یا پھر کافی نہیں۔ اگر کافی ہیں تو قرآن نے کہیں یہ حکم نہیں دیا کہ کسی نئے ظہور پر بھی ایمان لاؤ۔ اگر کافی نہیں ہیں اور نئے شرائط میں نجات کی گنجائش باقی ہے تو پھر قرآن ناقص نکلا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ وہ اپنے اعلان ’’الیوم اکملت لکم دینکم‘‘ میں صادق نہیں۔ ہر مسلمان کے سامنے دونوں راہیں کھلی ہیں جو چاہے اختیار کرے۔ اگر قرآن پر ایمان ہے تو نئی شرط نجات کی گنجائش نہیں۔ اگر نئی شرط نجات مانی جاتی ہے تو قرآن اپنی جگہ باقی نہیں رہا۔ ’’والعاقبۃ للمتقین ابوالکلام‘‘ ۱۹(الف) بالی گنج۔
سرکلر روڈ کلکتہ، مورخہ ۵؍جون ۱۹۲۶ء
سائل کے سوالات میں ایک سوال نزول عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق بھی تھا۔ مولانا نے اس کا جواب بھی عنایت فرمایا وہ بھی درج ہے۔
نزول عیسیٰ علیہ السلام
آخر میں آپ نے سوال کیا ہے۔ اس جملہ کا کیا مطلب ہے کہ اب نہ کوئی بروزی مسیح آنے والا ہے نہ حقیقی، قرآن آچکا اور دین کامل ہوچکا۔ جواب یہ ہے جو اردو میں اس جملہ کا ہوسکتا ہے۔ یعنی دین اسلام اپنی تکمیل میں کسی ظہور کا محتاج نہیں۔ اس لئے نہ تو کسی بروزی مسیح کی ضرورت ہے نہ حقیقی کی۔
ہاں… بلاشبہ احادیث میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ایک ایسے نزول کی خبر دی گئی جو قیامت کے آثار ومقدمات میں سے ہوگا۔ کسی حدیث میں یہ نہیں ہے کہ ان کا ظہور بحیثیت رسول کے ہوگا۔ یا تکمیل دین کا معاملہ ان کے نزول پر موقوف ہے۔ پس تکمیل دین کے لئے ہم کسی نئے ظہور پر اعتقاد نہیں رکھتے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دین کا معاملہ کامل ہوچکا۔ پھر کیا آپ کو اس اعتقاد سے انکار ہے؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ قرآن ناقص ہے۔ دین کا معاملہ پورا نہ ہوسکا اور اب نئے ظہور ہوتے رہیں گے۔ تادین کامل ہو جائے۔ (از ہفتہ وار حق ص۱۰، مورخہ ۹؍جون ۱۹۵۲ئ)