آمدورفت کی وجہ سے ان کی وفاداری منقسم ہوکر کمزور ہوگئی۔ یہاں تک کہ وہ دین ہی کو ضائع کربیٹھے۔ پھر یہ امت جسے محمد رسول اﷲﷺ سے درحقیقت صرف روحانی اور دینی تعلق ہے۔ جادۂ وفا پر کس طرح مستقیم رہ سکتی تھی۔ اس وفاداری کو قوی بنانے اور قائم رکھنے کا ذریعہ صرف یہی تھا کہ خاتم النبیین کا تاج کرامت محمد عربیﷺ کے سر اقدس پر رکھ دیا جائے اور آپﷺ کے بعد بعثت کا دروازہ بند کر دیا جائے۔ یہی وہ شے ہے جو امت کے جذبہ وفاداری کو غذادے کر اسے زندہ قوی رکھتی ہے اور یہی جذبہ وفاء ہے۔ امت کے لئے سامان بقاء ہے۔
اس نفسیاتی اصول کا تذکرہ جس کی صداقت کی شہادت تاریخ کے ساتھ مشاہدہ بھی دیتا ہے۔ یہاں مناسب ہے کہ جس طرح کسی مملکت کے ساتھ اس کے شہریوں کی وابستگی محض عقلی بنیادوں پر مستحکم وپائیدار نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح کسی دین کے ساتھ کسی امت کی وابستگی اور اس کی اطاعت میں استقامت محض عقلی دلائل کی بنیاد پر دیرپا نہیں ہوسکتی۔ جذبہ وفاداری جس کے خمیر میں عقلی عناصر بھی شریک ہوتے ہیں۔ لیکن جس کا وجود محبت کی حرارت کارہین کرم ہوتا ہے۔ استقامت وپائیداری کے لئے ناگزیر شے ہے۔ چمن وفاء کو امت محمدیہ (علیہ الف الف تحیہ) میں سدا بہار رکھنے کے لئے ناگزیر تھا کہ اس کی آبیاری صرف رحمتہ للعالمین کے ابر کرم کی رہین منت ہو اور قیامت تک اسے کسی دوسرے کی طرف دیکھنے کی حاجت درپیش نہ ہو۔ گویا ختم نبوت اس امت کے مخصوص مزاج کا تقاضا اور اسے خاتم النبیین کی امت بناکر نبوت کا دروازہ بالکل بند کر دینا حکمت ورحمت الٰہی کا اقتضاء ہے۔
حصہ دوم … عقیدہ ختم نبوت نقل کی روشنی میں
باب اوّل
اس اہم اور مہتمم بالشان مسئلہ کے متعلق عقل سلیم کا فیصلہ گذشتہ صفحات میں واضح کیا جاچکا، اور یہ حقیقت اظہر من الشمس ہوچکی کہ محمد رسول اﷲﷺ کو خاتم النبیین بایں معنی تسلیم کرنا کہ آپﷺ کے بعد کسی نبی ورسول کی بعثت نہ ہوئی ہے نہ قیامت تک ہوگی۔ عقلاً واجب ولازم ہے۔ یہی جمہور اہل اسلام کا عقیدہ ہے جو خلفاً عن سلف متوارث اور اجماعی ہے۔ اس سے اختلاف کرنا امت محمدیہ علیہ الف الف تحیہ کی مخالفت، عقل وخرد سے بغاوت اور فہم وفراست سے عداوت کے مرادف ہے۔
لیکن اس پیکر حق وصداقت عقیدے کی بنیاد صرف عقل وفہم پر قائم نہیں بلکہ قرآن مجید