کچھ تریاق بھی مہیا کر دیں۔ جو بعض مسلمانوں کی روحانی موت کا باعث ہورہا ہے۔ یعنی ختم نبوت کے عقیدے پر دلائل وبراہین بھی قائم کر دیں جو دینی مسائل میں صحیح نتیجہ پر پہنچاتا ہے اور غیروں کی گمراہ کن تشکیک سے ذہن کو محفوظ رکھتا ہے۔ اس مقصد کے پیش نظر میں نے بحث کو دو حصوں میں منقسم کردیا ہے۔ یعنی عقلی اور نقلی۔
حصہ اوّل! میں خالص عقلی دلائل سے ختم نبوت کی صداقت وحقانیت کو واضح کیا گیا ہے۔ دوسرے حصہ! میں قرآن وحدیث کی روشنی میں مسئلہ کی وضاحت کی گئی ہے۔ خاتمہ میں میں نے ان مغالطوں کا پردہ چاک کیا ہے۔ جن کا سہارا اجراء نبوت کے مدعی لیتے ہیں۔
محمد اسحاق صدیقی عفی اﷲ عنہ!
حصہ اوّل … عقیدہ ختم نبوت عقل کی روشنی میں
باب اوّل
خاتم النبیین کے بعد کسی دوسری نبوت کی ضرورت نہیں۔
ابر رحمت اس وقت رہتا ہے جب زمین کے لب خشک صدائے العطش بلند کرتے ہیں۔ باد بہاری چمن کے لئے حیات تازہ کا پیام اس وقت تک لاتی ہے جب وہ بیداد خزاں سے عاجز آکر سراپا فریاد والغیاث بن جاتا ہے۔ مہر عالم افروز اپنا رخ انور اس وقت بے نقاب کرتا ہے جب کہ تیرگی شب حد سے گذر جاتی ہے اور ردائے ظلمت میں دنیا کا دم گھنٹے لگتا ہے۔ دنیا کے حوادث وتغیرات پر غور کرو۔ تم دیکھو کہ ان میں سے کوئی بھی بغیر احتیاج وضرورت کے وجود میں نہیں آتا تو کیا عقل سلیم یہ باور کر سکتی ہے کہ اﷲتعالیٰ کا کوئی نبی ورسول اس خاکدان عالم میں اس وقت آیا ہوگا یا آسکتا ہے۔ جب یہاں اس کی کوئی احتیاج وضرورت نہ ہو؟
مقام نبوت، انسانیت کی آخری معراج اور ارتقاء انسانی کی اعلیٰ ترین منزل ہے۔ اس اعلیٰ منزلت کی شخصیت ایسے وقت اور ایسے ظروف واحوال میں بھیجی جائے جب کہ اس کی کوئی احتیاج وضروت نہ ہو۔ یہ بات بالکل عقل وفہم کے خلاف ہے۔
کیا خاتم النبیین محمد رسول اﷲﷺ کے بعد کسی شخص کو تاج نبوت سے سرفراز فرمایا گیا ہے۔ یا قیامت تک اس کا امکان ہے کہ کسی کو یہ خلعت اکرام عطاء فرمایا جائے؟ یہ دونوں مسئلے سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتے۔ جب تک یہ ثابت نہ کر دیا جائے کہ سید المرسلین کے تشریف لانے کے بعد دنیا کے لئے کسی نبی کا احتیاج وضرورت باقی رہ جاتی ہے۔