مرزاغلام احمد قادیانی کی سیاسی زندگی کا تیسرا دور
(سرکاری بے اعتباری) احمدیت کی ابتداء میں انگریز مخالف نہ تھے۔ سوائے چند ابتدائی ایام کے جب کہ وہ مہدی کے لفظ سے گھبراتے تھے۔ مگر اب تو وہ بھی مخالف ہورہے ہیں۔ بہت تھوڑے ہیں جو جماعت کی خدمات کو سمجھتے ہیں۔ باقی تو باغیوں سے بھی زیادہ ہمیں غصہ سے دیکھتے ہیں اور اگر انگریزوں کا فطری عدل مانع نہ ہوتا تو وہ ہمیں پیس بھی دیں۔
انگریز شاید خیال کرنے لگے ہیں کہ اتنی بڑی منظم جماعت اگر مخالف ہوگی تو ہمارے لئے بہت پریشانیوں کاموجب ہوگی اور وہ اتنا نہیں سوچتے کہ جماعت احمدیہ کی مذہبی تعلیم یہ ہے کہ حکومت کی فرمانبرداری کی جائے۔ تو پھر جماعت احمدیہ گورنمنٹ کی مخالف ہو۔ کس طرح سکتی ہے؟ لیکن شاید وہ گربہ کشتن روز اوّل کے مطابق ہمیں دبا دینا ضروری سمجھتے ہیں۔
(اخبار الفضل قادیان ج۲۱ نمبر۱۱، مورخہ ۱۵؍مارچ ۱۹۳۴ئ، قادیانی مذہب ص۶۱۱)
قادیانی اسناد
ہم نے پچاس سال سے دنیا میں امن قائم کر رکھا ہے۔ ہم نے لاکھوں روپیہ گورنمنٹ کی بہبودی کے لئے قربان کیا ہے اور کوئی شخص بتا نہیں سکتا کہ اس کے بدلے ایک پیسہ بھی ہم نے گورنمنٹ سے کبھی لیا ہو؟ ہمارے پاس وہ کاغذات موجود ہیں جس میں گورنمنٹ نے ہمارے خاندان کی خدمات کا اعتراف کیا ہے۔
اور یہ وعدہ کیا ہوا ہے کہ اس خاندان کو وہی اعزاز دیا جائے گا جو اسے پہلے حاصل تھا۔ ہمارے پر دادا کو ہفت ہزاری کا درجہ ملا ہوا تھا۔ جو مغلیہ سلطنت میں صرف شہزادوں کو ملا کرتا تھا۔ پھر عرعضدالدولۃ کا خطاب حاصل تھا۔ یعنی حکومت کا بازو۔
(اخبار الفضل قادیان ج۲۳، نمبر۵۰، مورخہ ۲۳؍اکتوبر ۱۹۳۴ئ)
برطانیہ کے لئے جانیں قربان کرنے والی جماعت
بہت سے افسر ایسے گذرے ہیں جو فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے اپنے حسن سلوک سے پچاس ہزار یا لاکھ بلکہ کئی لاکھ کی ایک ایسی جماعت (قادیانی) ہندوستان میں چھوڑی ہے جو اپنی جانیں قربان کر کے بھی برطانیہ سے تعاون کریںگی۔ مگر موجودہ افسر جاکر کیا کہہ سکتے ہیں۔ سوائے اس کے صاحب فخریہ کہیں کہ ہم اسی جماعت کے گروہ کو توڑ کر آئے ہیں۔ کیا یہ بات ان کی اپنی یا ان کی حکومت کی شہرت کا سبب ہوگا؟
(اخبار الفضل قادیان ج۲۳، نمبر۲۴، مورخہ ۳۱؍جولائی ۱۹۳۵ئ)