اسے یاد ہی نہیں رہتا۔ کیسے کیسے خودسری کے دعویٰ کرتا ہے۔ خدا کی خدائی سے برسر پیکار ہوتا ہے اور قضا وقدر سے بھڑ جاتا ہے۔ وہ سرکش انسان اور خاک میں مل جاتی ہیں۔ اس کی خام خیالیاں اور باطل امیدیں مبارک ہیں۔ وہ جو اپنے انجام پر نظر رکھتے ہیں۔
اوروں کو مارنے کے جو رہتے تھے مدعی
ہر روز چھاپتے تھے جو دعویٰ نئے نئے
مرزائے کادیانی کذاب الغرض
دنیا سے آپ ہی بصد رمان چلے گئے
باب نمبر:۱۶ … ہلاکت مرزاقادیانی کے دم سے
شعرائے متقدمین میں مرزارفیع الدین سودا کا بڑا پایہ ہے۔ ہجو گوئی میں انہیں بہت کمال حاصل تھا اور لوگ ان سے ڈرتے تھے کہ کہیں بگڑے تو ہجو نہ لکھ دیں۔ مولانا محمد حسین آزاد ’’آب حیات‘‘ میں ان کی بابت لکھتے ہیں کہ: ’’عالم، جاہل، فقیر، امیر، نیک، بدکسی کی داڑھی ان کے ہاتھ سے نہیں بچی۔ غنچہ نام ان کا ایک غلام تھا۔ ہر وقت خدمت میں رہتا تھا اور ساتھ قلمدان لئے پھرتا تھا۔ جب کسی سے بگڑتے تو فوراً پکارتے۔ ارے غنچہ! لاتو قلمدان۔ ذرا میں اس کی خبر تو لوں۔ یہ مجھے سمجھا کیا ہے۔ پھر شرم کی آنکھیں بند اور بے حیائی کا منہ کھول کر وہ وہ بے نقط سناتے تھے کہ شیطان بھی امان مانگے۔‘‘ یہی حال مرزاقادیانی کا تھا کہ جس سے مخالفت ہوئی۔ اس سے بھلے مانس کی مذمت کی۔ گالیاں دیں۔ تہذیب وشرافت کو بالائے طاق رکھا اور جو دل میں آیا کہہ دیا۔ اسی پر طرہ یہ کہ جھٹ موت کی دھمکی دی اور بیماری ولاچاری یا سخت تکلیف اور مصیبت کی پیش گوئی کر دی۔ آپ کی زبان تو بدگوئی میں سودا سے کم نہ تھی۔ لیکن فخر آپ کو لوگوں پر ہلاکت اور تباہی، ذلت وبربادی لانے اور انہیں موت کے گھاٹ اتارنے میں تھا۔ ہمارا تو ایمان ہے کہ مرزاقادیانی خدا کی کائنات میں ایک بے مقدار ذرہ اور ایک بے حقیقت شے تھے۔ ان کی کیا طاقت تھی کہ خدا کے انتظام میں دخل دے سکتے۔ وہ دعاء کرتے اور لوگ مر جاتے۔ لیکن انہیں اپنی بددعاؤں پر بڑا ناز تھا اور ان کا دعویٰ تھا کہ ہزاروں اور لاکھوں ان کی بدعا سے مر گئے۔ مردوں کے جلانے کا نہ مرزاقادیانی کو دعویٰ تھا نہ ان کے مرید اسے ان کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ لیکن ہمیں سنایا جاتا ہے تو بس یہی کہ دیکھا۔ انہوں نے پیکان اجل سے کیسے بے امان تیر چلائے۔