غیور ہے ہر ایک مراد سے نومید کیا۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۸۱، خزائن ج۱۹ ص۱۹۳)
اہانت آنحضرتﷺ
’’حضرت رسول خداﷺ کے الہام ووحی مدینہ منورہ سے قصد مکہ غلط نکلی۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۶۸۸، خزائن ج۳ ص۴۷۱)
’’ہم کہہ سکتے ہیں کہ حضرتﷺ پر مسیح ابن مریم اور دجال کی حقیقت کاملہ بوجہ نہ ہونے موجود کسی نمونہ کے منکشف نہ ہوئی۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۹۱، خزائن ج۳ ص۴۷۳)
مرزاقادیانی کا یہ عام دستور تھا کہ جب ذات شریف پر کوئی اعتراض ہوتا تو اسے اٹھا کر انبیائے سابقین کے سر تھوپ دیتے۔ یا قرآن مجید کے ذمہ لگادیتے اور آپ ایک طرف ہو جاتے۔ چنانچہ اپنی گالیوں کی حمایت میں بھی آپ نے ایسا ہی کیا۔ فرمایا کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی بدزبانی کی تھی اور حوالہ میں متی کی انجیل کاتیسواں باب پیش کیا۔ جہاں آپ نے ریاکار فقیہوں اور فریسیوں کی زبوں حالی پر رنج وافسوس کیاہے اور ان کی کمزوریاں ان پر ظاہر کی ہیں اور اس درد ومحبت کے ساتھ جیسا کہ ان الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے جو ان کے متصل ہی آتے ہیں کہ اے یروشلم! اے یروشلم!!
’’تو جو نبیوں کو قتل کرتی ہے اور جو تیرے پاس بھیجے گئے۔ انہیں سنگسار کرتی ہے۔ کتنی ہی بار میں نے چاہا کہ جس طرح مرغی اپنے بچوں کو پروں تلے جمع کر لیتی ہے اسی طرح میں بھی تیرے لڑکوں کو جمع کر لوں۔ مگر تم نے نہ چاہا۔‘‘
اور مرزاقادیانی اسی پر اکتفا نہیں کرتے۔ قرآن مجید سے بھی سند لیتے ہیں۔
باب نمبر:۴ … اہانت قرآن (قرآن میں گالیاں)
’’قرآن شریف جس آواز بلند سے سخت زبانی کے طریق کو استعمال کر رہا ہے۔ ایک غایت درجہ کا غبی اور سخت درجہ کا نادان بھی بے خبر نہیں رہ سکتا۔ مثلاً زمانہ حال کے مہذبین کے نزدیک کسی پر لعنت بھیجنا ایک سخت گالی ہے۔ لیکن قرآن شریف کفار کو سنا سنا کر ان پر لعنت بھیجتا ہے… ایسا ہی کسی انسان کو حیوان کہنا بھی ایک قسم کی گالی ہے۔ لیکن قرآن شریف نہ صرف حیوان بلکہ کفار اور منکرین کو دنیا کے تمام حیوانات سے بدتر قرار دیتا ہے… ایسا ہی ظاہر ہے کہ کسی خاص آدمی کا نام لے کر یا اشارے کے طور پر اس کو نشانہ بنا کر گالی دینا زمانہ حال کی تہذہب کے برخلاف ہے۔ لیکن خداتعالیٰ نے قرآن میں بعض کا نام ابولہب اور بعض کا نام کلب اور خنزیر رکھا