اسی طرح ملا علی قاریؒ (شرح فقہ اکبر ص۲۰۲) میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’ودعوۃ النبوۃ بعد نبیناﷺ کفر بالاجماع‘‘ {نبوت کا دعویٰ ہمارے نبی کریم (محمد)ﷺ کے بعد بالاجماع کفر ہے۔}
آیات واحادیث اجماع ان سب دلائل شرعیہ کی روشنی میں یہ بات بالکل قطعی ویقینی طریقہ سے آفتاب نصف انہار کی طرح واضح ہوگئی کہ سید المرسلین محمد رسول اﷲﷺ خاتم النبیین ہیں اور آپؐ کے بعد کسی نبی ورسول کی بعثت نہیں ہوئی۔ اسی طرح قیامت تک کسی نبی ورسول کی بعثت نہیں ہوسکتی۔ جو شخص اس کا انکار کرتا ہے یا اس میں شک کرتا ہے وہ یقینا اسلام سے خارج اور زمرۂ مسلمین سے باہر ہے۔ جن لوگوں نے آنحضورﷺ کے بعد نبوت یا رسالت کا دعویٰ کیا یا جو آئندہ اس قسم کا دعویٰ کریں خواہ وہ اپنے باطل دعویٰ پر ظلی وبروزی نبوت کی خانہ ساز اصطلاح کا پردہ ڈالیں یا اصلی نبوت کے مدعی بنیں ، دونوں صورتوں میں وہ کذاب، کافر، مرتد، خارج از اسلام قرار دئیے جائیں گے اور دشمنان دین مبین کے زمرہ میں داخل ہوںگے۔ آخرت میں ان کے لئے ابدالآباد کے جہنم کے سوا اور کوئی ٹھکانا نہیں۔ ایسے لوگوں کا کافر مرتد اور کذاب ہونا بالکل قطعی اور یقینی ہے۔ اس میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔
یہ بات بھی واضح کر دینا مفید ہے کہ جو آیتیں اور حدیثیں ہم نے نقل کی ہیں۔ ان کے علاوہ بکثرت آیات اور حدیثیں ہیں جو ہمارے مدعا کو روز روشن کی طرح روشن کر رہی ہیں۔ جیسا کہ آنحضرتﷺ کی وہ حدیث کہ میرے بعد اگر نبی آنے والا ہوتا تو حضرت عمرؓ ہوتے۔
اجماع سلف کا اظہار کرنے والے واقعات تو ان سے بھی زائد ہیں۔ لیکن اثبات مدعیٰ کے لئے ایک قوی دلیل بھی کافی ہوتی ہے۔ اس لئے اوّل تو اختصار کے لئے ہم نے سب دلائل نقل نہیں کئے۔ دوسرے ہمارا خاص مقصد اس کتاب میں مسئلہ پر عقلی نقطۂ نظر سے بحث کرنا ہے۔ اس لئے دلائل نقلیہ میں ہم نے اختصار سے کام لیا ہے تاہم جو دلائل ذکر کئے ہیں ان میں سے ہر ایک بالکل کافی وشافی اور قطعی ویقینی ہے۔
باب دوم … نزول مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام
ارشادات قرآنی اور احادیث صحیحہ کثیرہ سے جو حدتواتر کو پہنچتی ہیں۔ نیز اجماع امت سے ثابت ہے کہ عمر دنیا کے اختتام کے قریب حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں