جواب میرے ذمہ ہے اور فرمان رسول ذیل میں درج کرتا ہوں۔ کیونکہ قرآن کریم کے معنی خود حضرت اقدسﷺ نے جو کئے ہیں وہی صحیح ہیں اور اس کے خلاف اگر کوئی شخص معنی کرے گا تو وہ آپؐ کا مخالف ہوگا۔
ختم نبوت کے معنی اور تاجدار مدینہﷺ
’’انا خاتم النبیین لا نبی بعدی‘‘ {میں خاتم النبیین ہوں۔ میرے بعد کوئی کسی قسم کا نبی نہیں ہوگا۔}
ممکن ہے کہ معترض یہ اعتراض کر دے۔ جیسا کہ کئی دفعہ زبانی اعتراض مجھ پر کر چکے ہیں کہ کوئی کسی قسم کا نبی نہیں ہوگا۔ کہاں سے مفہوم نکالا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ لا نبی بعدی میں ’’لا نفی جنس‘‘ درج ہوا ہے۔ لہٰذا یہ ’’لا‘‘ جس جنس پر داخل ہو جاتا ہے اس جنس کو ختم کر دیتا ہے۔ چونکہ یہاں نبوت کی جنس پر داخل ہوا ہے۔ لہٰذا جنس نبوت ختم ہو جاتی ہے۔ یعنی اب نہ ظلی، نہ بروزی، نہ امتی، نہ غیرامتی اور نہ تشریعی اور نہ غیر تشریعی کسی قسم کا نبی نہیں آسکتا۔ اﷲتعالیٰ نے اس لا کے معنی ہر مسلمان کو مسلمان ہوتے وقت بتلادئیے ہیں۔ تاکہ کوئی مسلمان دھوکہ نہ کھا سکے اور اس کے معنی غلط نہ کر بیٹھے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ مسلمان مسلمان نہیں ہوتا۔ جب تک ’’لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ نہ پڑھے۔ اب اس کلمہ طیبہ میں سب سے پہلا حرف لا نفی جنس رکھ دیا گیا ہے کہ ’’لا الہ‘‘ یعنی نہیں کوئی معبود حقیقی۔ ’’الا اﷲ‘‘ سوائے اﷲتعالیٰ کے یہاں اس لا نے جنس الوہیت ختم کر دی ہے کہ اﷲتعالیٰ کے علاوہ کوئی بھی عبادت کے لائق نہیں ہے۔ نہ ظلی نہ بروزی، نہ مجازی۔ غرضیکہ اﷲتعالیٰ کے سوا کوئی کسی قسم کا معبود نہیں ہے۔ یہی معنی ’’لا نبی بعدی‘‘ میں ہوئے۔
جس طرح ’’لا الہ‘‘ سے ہر قسم کی الوہیت ختم ہو جاتی ہے۔ اسی طرح ’’لا نبی بعدی‘‘ میں حضورﷺ کے بعد ہر قسم کی نبوت ختم ہو گئی ہے۔ چاہے ظلی ہو، بروزی ہو، امتی ہو یا غیر تشریعی ہو۔ ہر قسم کی نبوت کو حضورﷺ کے بعد اس لا نے ہڑپ کر لیا ہے۔
اب حضورﷺ کے بعد جو شخص بھی نبوت کا دعویٰ کرے وہ جھوٹی نبوت کا دعویٰ تو کر سکتا ہے۔ مگر سچی نبوت کے لئے تمام دروازے بند کردئیے گئے ہیں اور اس لا نفی جنس نے ہر ایک سچی نبوت کو بند کر دیا ہے۔
’’لوکان بعدی نبی لکان عمر ابن الخطاب (ترمذی ج۲ ص۲۰۹)‘‘ {اگر میرے بعد نبی ہوتا تو عمر ابن الخطابؓ ہوتا۔}