امام اپنا عزیز واس جہاں میں
غلام احمد ہوا دارالاماں میں
غلام احمد ہے عرش رب اکبر
مکاں اس کا ہے گویا لامکاں میں
محمد پھر اتر آئے ہیں ہم میں
اور آگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شاں میں
محمد یکھنے ہوں جس نے اکمل
غلام احمد کو دیکھے قادیاں میں
(اخبار بدر ج۲ شمارہ نمبر۴۳، مورخہ ۲۵؍اکتوبر ۱۹۰۶ئ)
ممکن ہے کہ کوئی شخص یہ اعتراض کر دے کہ شاعروں کا کیا کہنا وہ تو عرش وفرش کے قلابے ملادئیے ہیں۔ کیا اس نظم کو مرزاغلام احمد قادیانی نے بھی سنا تھا اور پسند کیا تھا تو یہ بھی آپ ثبوت پڑھ لیں۔ ’’یہ وہ نظم ہے جو حضرت مسیح موعود (مرزائے قادیانی۔ ناقل) کے حضور پڑھی گئی اور حضور اسے اپنے ساتھ اندر لے گئے۔ پھر یہ نظم اخبار بدر اکتوبر ۱۹۰۶ء میں چھپی اور شائع ہوئی۔ پس حضرت مسیح موعود کا شرف سماعت حاصل کرنے اور جزاکم اﷲ کا صلہ پانے اور قطعے کو خود اندر لے جانے کے بعد کسی کو حق ہی کیا پہنچتا ہے کہ اس پر اعتراض کر کے اپنی کمزوری ایمان اور قلت عرفان کا ثبوت دے۔‘‘ (اخبار الفضل قادیان مورخہ ۲۳؍اگست ۱۹۴۴ئ، بحوالہ قادیانی فتنہ ص۴۵،۴۶)
کلمہ طیبہ میںمحمد رسول اﷲ سے مراد مرزاغلام احمد قادیانی
جب میں نے مندرجہ بالا تحقیقات کے بعد مرزائیت سے توبہ کی اور الحمدﷲ کہ میرے ساتھ میری قادیانی بیوی اور بچوں نے بھی مرزائیت سے توبہ کر لی اور اس کے بعد میں نے تبلیغ اسلام کو اپنا مقصد حیات بنالیا تو ایک دفعہ مولانا محمد علی جالندھریؒ کے ساتھ ڈیرہ غازیخان شہر میں جاکر تقریر کرنے کا اتفاق ہوا تو میری تقریر کے دوسرے دن مرزائی مبلغ عبدالرحمن مبشر نے میری تقریر کی تردید کرتے ہوئے یہ دعویٰ اور چیلنج بھی پیش کر دیا کہ اگر کوئی شخص یہ بات ثابت کر دے کہ ہم احمدی کلمہ میں جو محمد رسول اﷲ کا لفظ پڑھتے ہیں۔ اس سے مراد مرزاقادیانی ہوتے ہیں تو میں ایک ہزار روپیہ انعام دوںگا۔ چنانچہ اس کے اس چیلنج کے پیش نظر دوسرے دن میں نے منادی کرادی کہ میں ثابت کروں گا کہ احمدی جو کلمہ پڑھتے ہیں اس میں محمد رسول اﷲ سے مراد مرزاغلام احمد قادیانی ہوتے ہیں اور ایک ہزار روپیہ کا مطالبہ بھی کروںگا۔ چنانچہ حسب اعلان