الگ جماعت تسلیم کرلے۔ یہ قادیانیوں کی پالیسی کے عین مطابق ہوگا اور مسلمان ان سے ویسی ہی رواداری سے کام لے گا جیسے وہ باقی مذاہب کے معاملہ میں اختیار کرتا ہے۔
(پرچہ ہفتہ وار حق ص۱۰،۱۳، مورخہ ۹؍جون ۱۹۵۲ئ)
ناظرین کرام خوب غور وفکر سے علامہ اقبالؒ کا فتویٰ ومطالبہ ملاحظہ فرمائیں۔ تو ایک نہایت ہی باریک اصول سامنے آئے گا وہ یہ کہ مرزائیوں کا وجود وحدت اسلامی کے لئے ایک زبردست خطرہ ہے۔ انگریز یہ چاہتا ہے کہ کسی طرح مسلمانوں کی وحدت ملی کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے مسلمانوں کو ہمیشہ کے لئے نیست ونابود کر دے۔ مرزائی اس لئے بھی کافر ومرتد ہوئے کہ اسلام کے انتشار اور افتراق کا باعث وسبب بنے۔
واضح ہو کہ یہ فتویٰ کسی مولوی کا نہیں ہے۔ بلکہ ایک فلسفی اور شاعر اسلام کا ہے۔
حضرت مولانا ابوالکلام آزاد کا فیصلہ کن بیان
اﷲ کی آخری اور کامل ہدایت آچکی ہے۔ جس کا نام قرآن ہے اور جس کے مبلغ حضرت محمدرسول اﷲﷺ تھے۔ جو انسان اس پر ایمان لاتا ہے اور اس کے بتلائے ہوئے احکام پر عمل کرتا ہے اس کے لئے نجات ہے۔ اس سے زیادہ ہم کچھ نہیں جانتے۔
کسی صاحب نے مولانا سے استفسار کیا کہ مرزائیوں کے متعلق ہم کیا عقیدہ رکھیں؟ حضرت مولانا صاحب کی طرف سے جو جواب عنایت ہوا وہ مندرجہ ذیل ہے۔
۱۹ (الف) بالی گنج سرکلر روڈ کلکتہ۔
۱۸؍مارچ ۱۹۲۶ئ۔ حبی فی اﷲ! السلام علیکم! خط پہنچا۔ آپ دریافت کرتے ہیں احمدی فرقہ کے دونوں گروہوں میں سے کون سا حق پر ہے۔ قادیانی یا لاہوری؟ میرے نزدیک دونوں حق وصواب پر نہیں ہیں۔ البتہ قادیانی گروہ اپنے غلو میں بہت دور تک چلاگیا ہے… حتیٰ کہ اسلام کے بنیادی عقائد متزلزل ہوگئے ہیں۔ مثلاً ان کا یہ اعتقاد کہ اب ایمان ونجات کے لئے اسلام کے معلوم ومسلم عقائد کافی نہیں۔ مرزاقادیانی پر ایمان لانا بھی ضروری ہے۔ لیکن لاہوری گروہ کو اس غلو سے انکار ہے۔ وہ نہ تو مرزاقادیانی کی نبوت کا اقرار کرتا ہے نہ ایمان کی شرائط میں کسی نئی شرط کا اضافہ کرتا ہے۔ اسے جو کچھ ٹھوکر لگی ہے۔ اس بے محل اعتقاد میں لگی ہے جو اس نے مرزاقادیانی کے لئے پیدا کر لیا ہے۔ باقی رہے۔ مرزاقادیانی کے دعاوی تو میں نہیں سمجھتا کہ کوئی شخص جس نے