یعنی مسیلمہ کذاب ، اسود عنسی اور ایک عورت نے بھی نبوت کا دعویٰ کر دیا۔ صحابہ کرامؓ نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اگر یہ نبوتیں زندہ رہتی ہیں تو حضورﷺ خاتم النبیین ثابت نہیں ہوتے۔ بلکہ اﷲتعالیٰ کا فرمان بھی غلط ہو جائے گا۔ نعوذ باﷲ!
اس لئے تمام صحابہ کرامؓ نے بہ اتفاق رائے ان تینوں کے خلاف محاذ جنگ قائم کیا۔ دو نے تو توبہ کری اور کلمہ ’’لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ پڑھ کر اپنی جان بچائی۔ مگر مسیلمہ کذاب نے پوری تیاری کر کے صحابہ کرامؓ سے زبردست جنگ کی۔ یہاں تک کہ ہزارہا صحابہ کرامؓ جو کہ حافظ قرآن کریم اور قاری تھے شہید کر دئیے۔ صحابہ کرامؓ نے اس نقصان عظیم کو تو برداشت کر لیا۔ مگر جھوٹی نبوت کے قیام کو ہرگز ہرگز برداشت نہ کیا۔ یہاں تک کہ مسیلمہ کذاب بھی واصل جہنم ہوگیا اور صحابہ کرامؓ کے ہاتھوں مارا گیا اور اس کا تمام لشکر بھی کیفر کردار کو پہنچ گیا۔ تب جاکر صحابہ کرامؓ نے آرام کا سانس لیا۔
صحابہ کرامؓ کے بعد بھی اب تک تمام ائمہ کرام مجتہدین عظام اور مفسرین ومحدثین اور علماء کرام اسی اعتقاد پر قائم ہیں کہ حضورﷺ کے بعد کوئی کسی قسم کا نبی نہیں آسکتا اور جو شخص بھی ایسا دعویٰ کرے وہ جھوٹا ہے۔ دجال ہے۔ کافر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ چنانچہ تحریک تحفظ ختم نبوت میں یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ سوائے قادیانی جماعت کے دوسرے مسلمانوں کا کوئی ایک گروہ یا جماعت یا فرد ایسا نہیں ہے جو ختم نبوت کا قائل نہ ہو۔
اب اس کے باوجود جو شخص بھی اﷲتعالیٰ کے قرآن اور رسول کریمﷺ کے فرمان اور صحابہ کرامؓ کے افہام اور جملہ مسلمانوں کے ایمان کے خلاف نبوت کا دعویٰ کرتا ہے اس کا تعلق مسلمانوں سے کسی طرح قائم نہیں رہ سکتا ہے۔
مرزاغلام احمد قادیانی کا پہلا اعتقاد
۱… ’’میں کافر نہیں ہوں اور خدا جانتا ہے کہ میں مسلمان ہوں اور ان سب اعتقاد پر ایمان رکھتا ہوں جو اہل سنت والجماعت مانتے ہیں اور کلمہ طیبہ ’’لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ کا قائل ہوں اور قبلہ کی طرف نماز پڑھتا ہوں اورمیں نبوت کا مدعی نہیں بلکہ ایسے مدعی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں۔‘‘
(آسمانی فیصلہ ص۶، مورخہ ۲۷؍دسمبر ۱۸۹۱ئ، خزائن ج۴ ص۳۱۳)
۲… ’’ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین یعنی محمدﷺ تم میں سے کسی مرد کا باپ نہیں ہے۔ مگر وہ رسول اﷲ ہے اور ختم