ختم نبوت کی کیسی انوکھی تفسیر اور ارتقائے نبوت کی کیسی تصویر ہے۔ تیرے مقام پر فضائل کا کیا کہنا۔ اولیاء تو کجا انبیاء بھی نظر نہیں آتے۔ جیسا کہ ؎
من پنجہ در پنجۂ خدا دارم
من چہ روائے مصطفیٰ دارم
سے ظاہر ہے۔ متعدد مقامات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مقابل آتے ہیں اور آنحضرتﷺ پر اپنی جزوی فضیلت ثابت کرتے ہیں۔
مرزاغلام احمد قادیانی کی مذہبی زندگی کے تفصیلی دو دور
واقعہ یہ ہے کہ قادیانی مذہب کا ایک بڑا اصول ہے۔ جس سے عام تو کیا خاص لوگ بھی بے خبر ہیں۔ وہ یہ کہ مرزاغلام احمد قادیانی کی مذہبی زندگی کے دور دور ہیں۔ پہلے دور میں تو وہ انکسار جتاتے ہیں۔ خوب اعتقاد اور عقیدت مند نظر آتے ہیں۔ انبیائ، اولیاء سب کو اپنا بڑا مانتے ہیں۔ سب کی عظمت کرتے ہیں۔ اتباع کا دم بھرتے ہیں۔ چنانچہ ملاحظہ ہو:
پہلا دور
السلام علیکم ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ، آپ کا والانامہ پہنچا۔ خداوند کریم آپ کو خوش وخرم رکھے۔ آپ وقائق متصوفین میں سوالات پیش کرتے ہیں اور یہ عاجز مفلس ہے۔ محض حضرت ارحم الرحمین کی ستاری نے اس ہیچ اور ناچیز کو مجلس صالحین میں فروغ دیا ہے۔ ’’ورنہ من آنم کہ من دانم‘‘ کاروبار قادر مطلق سے سخت حیرانی ہے کہ نہ عابد نہ عالم نہ زاہد، کیونکر اخوان مؤمنین کی نظر میں بزرگی بخشتا ہے۔ اس کی عنایت کی کیا ہی بلند شان ہے اور اس کے کام کیسے عجیب ہیں ؎
پسندید دگانے بجائے رسند
زما کہترانش چہ آمد پسند
(مندرجہ مکتوبات احمدیہ ج۱ ص۱۰)
میرا اعتقاد ہے کہ میرا کوئی دین بجز اسلام کے نہیں اور میں کوئی کتاب بجز قرآن کے نہیں رکھتا اور میرا کوئی پیغمبر بجز محمد مصطفیﷺ کے نہیں جو کہ خاتم النبیین ہے۔ جس پر خدا نے بے شمار رحمتیں اور برکتیں نازل کی ہیں اور اس کے دشمنوں پر لعنت بھیجی ہے۔ گواہ رہ کہ میرا تمسک قرآن شریف ہے اور رسولﷺ کی حدیث جو کہ چشمۂ حق ومعرفت ہے۔ میں پیروی کرتا ہوں