لیکن میں آغاز ہی میں یہ عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ میں کسی مذہبی بحث میں الجھنا نہیں چاہتا اور نہ میں قادیانی تحریک کے بانی کا نفسیاتی تجزیہ کرنا چاہتا ہوں۔ پہلی چیز عام مسلمانوں کے لئے کچھ دلچسپی نہیں رکھتی اور دوسری کے لئے ہندوستان میں ابھی وقت نہیں آیا۔ ہندوستان کی سرزمین پر بے شمار مذہب بستے ہیں۔ اسلام دینی حیثیت سے ان تمام مذاہب کی نسبت زیادہ گہرا ہے۔ کیونکہ ان مذاہب کی بناء کچھ حد تک مذہبی ہے اور ایک حد تک نسلی تخیل کی سراسر نفی کرتا ہے اور اپنی بنیاد محض مذہبی تخیل پر رکھتا ہے اور چونکہ اسلام کی بنیاد صرف دینی ہے۔ اس لئے وہ سراپا روحانیت ہے اور خونی رشتوں سے کہیں زیادہ لطیف بھی ہے۔ اسی لئے مسلمان اس تحریک کے معاملہ میں زیادہ حساس ہے جو اس کی وحدت کے لئے خطرناک ہو۔
چنانچہ ہر ایسی مذہبی جماعت جو تاریخی طور پر اسلام سے وابستہ ہو۔ لیکن اپنی بناء نئی نبوت پر رکھے اور بزعم خود اپنے الہامات پر اعتقاد نہ رکھنے والے تمام مسلمانوں کو کافر سمجھے۔ مسلمان اسے اسلام کی وحدت کے لئے ایک خطرہ تصور کرے گا اور یہ اس لئے کہ اسلامی وحدت ختم نبوت سے استوار ہوتی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ اسلام جو تمام جماعتوں کو ایک رسی میں پرونے کا دعویٰ رکھتا ہے۔ ایسی تحریک کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں رکھ سکتا جو اس کی موجودہ وحدت کے لئے خطرہ ہو اور مستقبل میں انسانی سوسائٹی کے لئے مزید افتراق کا باعث ہو۔
یہودیت نے حال ہی میں جن دوصورتوں میں جنم لیا ہے۔ میرے نزدیک ان میں بہائیت، قادیانیت سے کہیں مخلص ہے۔ کیونکہ وہ کھلے طور پر اسلام سے باغی ہے۔ لیکن مؤخر الذکر اسلام کی چند نہایت اہم صورتوں کو ظاہری طور پر قائم رکھتی ہے۔ لیکن باطنی طور پر اسلام کی روح اور مقاصد کے لئے مہلک ہے۔ اس کا خدا کا تصور کہ جس کے پاس دشمنوں کے لئے لاتعداد زلزلے اور بیماریاں ہوں۔ اس نبی کے متعلق نجومی تخیل اور اس کا روح مسیح کے تسلسل کا عقیدہ وغیرہ۔ یہ تمام چیزیں اپنے اندر یہودیت کے اتنے عناصر رکھتی ہیں۔ گویا یہ تحریک ہی یہودیت کی طرف رجوع ہے۔ روح مسیح کا تسلسل یہودی باطنیت کا جز ہے۔ پولی مسیح بال شینم کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر بوہر کہتا ہے کہ مسیح کی روح پیغمبروں اور صالح آدمیوں کے واسطے سے زمین پر اتری۔
شاعر اسلام علامہ محمد اقبالؒ کا مطالبہ
میری رائے میں حکومت کے لئے بہترین طریق کار یہ ہوگا کہ وہ قادیانیوں کو ایک