اس پر بس نہ کیا اور آگے بڑھے۔ خدا کا بیٹا بنے۔ خدا بنے اور ارض وسما پیدا کئے۔ انبیاء بیچارے ان کے مقابل کیا تھے۔ جہاں ان کی گذر تھی۔ وہاں فرشتوں کے پر جلتے ہیں۔ غرض اس من چلے نے نبیوں کی توہین کی اور علماء کو گالیاں دیں۔ عیسائیوں، مسلمانوں اور آریوں سب سے مناظرہ کا بازار گرم کیا۔ عمر بھر کسر صلیب کا ڈھول پیٹا۔ ہندوؤں کی بربادی کے خواب دیکھے۔ مسلمانوں کو ستاتا اور پریشان کرتا رہا۔ بڑی بڑی تعّلیاں کیں۔ اس ڈھب سے بہتیرے اس کے دام تزویر میں آپھنسے۔ بہت سی دولت بٹوری۔ آخیر اس جہاں فانی سے چل بسا۔ اس کی داستان طویل بھی ہے اور دلچسپ بھی، مگر یہاں تفصیل کی گنجائش نہیں۔ مختصر یہ کہ وہ ایک دنیا دار شخص تھا۔ جھوٹ اس کی گھٹی میں تھا۔ گالیاں دینا اس کی عادت تھی۔ فحش گوئی اور سخت کلامی سے اس کی تمام تصنیفات آلودہ ہیں۔ شاعر بھی تھا۔ مگر گھٹیا درجہ کا اور عاشق مزاج بھی۔ اگرچہ اس کا عشق خام تھا۔ ہم اسے حرام سمجھتے ہیں کہ بلا تحقیق کچھ منہ سے نکالیں یا اپنی جانب سے کچھ افتراء کر کے کسی کو مفت میں ملزم گردانیں۔ اس لئے ہم نے جو کچھ لکھا ہے مرزاقادیانی کی اپنی تحریرات پر مبنی ہے۔ جچی تلی باتیں ہیں جنہیں کوئی غلط ثابت نہیں کر سکتا۔ سچائیاں ہیں جو جھٹلائی نہیں جاسکتیں اور یہ سب الزامات نہیں۔ بلکہ حقائق ہیں۔ ثابت شدہ امور ہیں اور ہر کہ ومہہ پر روشن ہیں۔ ہم بفضل خدا مرزاقادیانی کے الفاظ سے یہ ثابت کریںگے باوجود استطاعت وتوفیق کے آپ نے فریضۂ حج بھی ادا نہ کیا۔ ملائکہ سے انہیں انکار، معراج کے وہ منکر۔ غرض ان کی زندگی پر غور کرنے کے بعد علیٰ وجہ البصیرت یہی فیصلہ دینا پڑتا ہے کہ غالباً مرزا قادیانی کے خیالات… ملحدانہ تھے۔ خدا پر انہیں یقین تھا نہ انبیاء پر ایمان۔ آپ نے خدا سے ٹھٹھا کیا۔ مذہب کی خاک اڑائی اور بتایا کہ اس طرح نبی بنتے ہیں۔ جہلاء کے دینی جوش وخروش سے فائدہ اٹھا کر دنیا کمائی۔ مولوی عبدالعزیز صاحب اپنی تصنیف (تفسیر القرآن اردو ص۸۶) میں لکھتے ہیں کہ: ’’مرزاقادیانی ایک دنیا دار تھے۔ آپ کو روپیہ کا بڑا لالچ تھا… کہیں مینارہ کا چندہ، کہیں بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے کے لئے جائیداد متوفی کا دسواں حصہ۔ کہیں سلسلہ تصنیف وتالیف کے واسطے چندہ کی مانگ۔ الغرض طرح طرح کے حیلوں سے آپ روپیہ بٹورا کرتے تھے۔ پلاؤ، قورمہ، روغن یاقوتی وغیرہ متلذ ذات سے عیش اڑاتے تھے۔‘‘ مرزاقادیانی مخالفین کے اعتراضات کو بدین الفاظ دہراتے ہیں کہ: ’’میری روح میں بجز شرارت اور بدی اور بدکاری اور نفس پرستی کے کچھ نہیں اور محض دنیا کے ٹھگنے کے لئے میں نے یہ دوکان بنائی ہے۔‘‘ اور حقیقت میں مخالفین کے یہ اعتراضات بالکل بجا اور درست ہیں۔ کیونکہ مرزاقادیانی اوائل میں عسرت اور تنگ حالی کے باعث نہایت سراسیمہ وحیران تھے اور انہیں اس