شخص نہ ہوتا تو یہ مقام تباہ ہو جاتا۔ (نوٹ مرزاقادیانی) اس الہام میں ابتدائی حروف کچھ اور تھے جو یاد نہیں رہے۔ مگر مفہوم یہ تھا۔‘‘ (بدر ج۶ نمبر۱۴ ص۳)
’’آسمان سے کئی تخت اترے پر تیرا تخت سب سے اوپر بچھایا گیا۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۸۹، خزائن ج۲۲ ص۹۲)
’’میں نور ہوں۔ مجدد مامور ہوں، عبد منصور ہوں، مہدی معہود ہوں اور مسیح موعود ہوں… مجھے کسی کے ساتھ قیاس مت کرو اور کسی دوسرے کو میرے ساتھ… میں مغز ہوں۔ جس کے ساتھ چھلکا نہیں اور روح ہوں۔ جس کے ساتھ جسم نہیں اور وہ سورج ہوں۔ جس کو دشمنی اور کینہ کا دھواں چھپا نہیں سکتا اور کوئی ایسا شخص تلاش کرو جو میری مانند ہو اور ہرگز نہیں پاؤ گے… میرے بعد کوئی ولی نہیں۔ مگر وہ جو مجھ سے ہوگا اور میرے عہد پر ہوگا اور میں اپنے خدا کی طرف سے تمام تر قوت اور برکت اور عزت کے ساتھ بھیجا گیا ہوں اور میرا قدم ایک ایسے مینارہ پر ہے جس پر ہر ایک بلندی ختم کی گئی ہے۔‘‘ (خطبہ الہامیہ ص۱۸تا۳۵، خزائن ج۱۶ ص۵۰تا۷۰)
باب نمبر:۳ … اہانت انبیاء علیہم السلام
ذیل میں ہم مرزاقادیانی کے ناملائم ودرشت الفاظ، سب وشتم اور فحش کلمات درج کرتے ہیں۔ تاکہ ناظرین ان کو بنظر انصاف پڑھیں اور دیکھیں کہ یہ صریح بدزبانیاں اور گالیاں ہیں کہ مدعی نبوت کی زبان پر معلم الملکوت کی طرف سے جاری کی گئی ہیں۔ جلے دل کے پھپھولے ہیں کہ توڑے ہیں۔ روح اﷲ کے ساتھ بغض وعداوت ہے کہ ان کی ہر بات سے ٹپکتی ہے۔ یہ ایسا متعفن وآلودہ، ناپاک اور بیہودہ مواد ہے کہ نبی تو ایک طرف کسی شریف آدمی کی نسبت بھی یہ یقین نہیں کیا جاسکتا کہ یہ گندگی کا ذخیرہ اس کے دل میں جمع اور یہ غلاظت اس کی زبان سے مترشح ہو۔ خصوصاً وہ جو اعلیٰ تہذیب واخلاق کا مدعی ہو اور جو دنیا کو اخلاق فاضلہ سکھانے اور انسانیت وشرافت کا سبق دینے آیا ہو۔ جو مکالمہ ومخاطبہ الٰہیہ سے مشرف ہو۔ روح القدس کی تائید ہمیشہ اس کے شامل حال رہے۔ جسے الہام… ہو کہ اے احمد تیرے لبوں پر رحمت جاری کی گئی ہے اور جو ساری دنیا کو بیوقوف سمجھ کر خود ہی کہتا ہو کہ: ’’ہمارا ہر گز یہ طریق نہیں کہ مناظرات ومجادلات یا اپنی تالیفات میں کسی نوع کے سخت الفاظ کو اپنے مخاطب کے لئے پسند رکھیں یا کوئی دل دکھانے والا لفظ اس کے حق میں یا اس کے کسی بزرگ کے حق میں بولیں۔ کیونکہ یہ طریق علاوہ خلاف تہذیب ہونے کے ان لوگوں کے لئے مضر بھی ہے۔ جو مخالف رائے کی حالت میں فریق ثانی کی کتاب کو