جاسکتی ہو؟ کیا وہ بھی مستقل اور اصل نبی نہ تھے اور دور کیوں جائیے۔ خود خاتم النبیین محمد مصطفیٰﷺ کو شریعت ابراہیمی (علیہ السلام) کی پیروی اور اس کی طرف دعوت دینے کا حکم دیا گیا۔ بلکہ ابتدائی مکی زندگی میں جہاں عملی احکام بہت کم نازل ہوئے تھے اور ایمانیات کی زیادہ تفصیل فرمائی گئی تھی۔ آنحضور کا عمل زیادہ تر شریعت ابراہیمی پر رہا گویا مستقل شریعت تو آپ کو مدینہ طیبہ تشریف لانے سے کچھ مدت پہلے عطاء فرمائی گئی۔ مگر اس میں بھی خاصی تعداد شریعت ابراہیمی کے اجزاء کی ہے تو کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ قیام مکہ معظمہ کے ابتدائی زمانہ میں سید المرسلین علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی نبوت معاذ اﷲ ظلی وبروزی تھی؟ اور آنحضور مستقل اور اصلی نبی نہ تھے؟ یا یہ کہ جس حد تک شریعت محمدیہ علیہ الف الف تحیہ میں شریعت ابراہیمی (علیہ السلام) کے اجزاء داخل ہیں۔ اس حد تک معاذ اﷲ آنحضورﷺ کی نبوت ورسالت اصلی نہیں بلکہ ظلی وبروزی ہے؟ ایسی بات کہنے والا اسلام سے خارج ہے اور کسی دشمن اسلام کے سوا کسی کی زبان سے یہ بات نہیں نکل سکتی۔ ’’اعاذنا اﷲ من ہذا لکفر‘‘
حقیقت یہ ہے کہ ہر نبی کی شریعت میں سابقہ ربانی شریعت کے مناسب اجزاء باقی رکھے گئے اور ایسے انبیاء بھی ہوئے ہیں۔ جنہوں نے کلیتہً کسی دوسرے نبی کی شریعت پر عمل فرمایا اور اسی کی پیروی کی طرف دعوت دی۔ مگر اس سے ان کی نبوت ورسالت کے استقلال پر ذرہ برابر بھی اثر نہیں پڑتا۔ بلکہ حقیقت کے لحاظ سے یہ کہنا بھی صحیح نہیں کہ انہوں نے دوسرے نبی کی شریعت پر عمل کیا۔مقام نبوت پر فائز ہونے کے بعد وہ اس شریعت پر اس لئے عمل کرتے ہیں کہ وحی ربانی انہیں اس کی اتباع کا حکم دیتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ وحی کی اتباع کرتے ہیں نہ کہ دوسرے کی شریعت کی۔
مفہوم کی اس بحث سے یہ بات اظہر من الشمس ہوگئی کہ لفظ ظلی وبروزی ایک بے معنی اور مہمل مجموعہ اصوات ہے۔ جس کا مصدق عنقاء کی طرح دنیا میں آج تک نہیں پایا گیا اور قیامت تک کبھی نہیں پایا جاسکتا۔ منکرین ختم نبوت ان مہمل اور بے معنی الفاظ کو باربار استعمال کر کے لفظی مغالطہ دینا چاہتے ہیں۔
دوسرا مغالطہ
مثل مشہور ہے۔ ’’خوئے بدرا بہانہ بسیار‘‘ اس کا مصداق کامل منکرین ختم نبوت بھی ہیں۔ قرآن حکیم کے سامنے عاجز ہوکر یہ لوگ بعض آیات قرآن حکیم میں تحریف معنوی کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے صحیح مفہوم سے اعراض کر کے اپنی خواہش کے مطابق اس کی تفسیر کر کے