اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کے امتیوں میں یہ مرض الہام متعدی ہوگیا۔ ایک ملہم کو ہم جانتے ہیں جو ایک وقت میں امریکن مشن اسکول سیالکوٹ میں ملازم تھا اور اسکول کا وقت جو لڑکوں کی تعلیم کے لئے تھا اور جس کے لئے اس کو تنخواہ ملتی تھی۔ چرا کر خدا سے مکالمہ ومخاطبہ میں صرف کرتا تھا۔ کرسی پر بیٹھے بیٹھے اونگھ جاتا اور گویا لاسلکی کی تار برقی شروع ہو جاتی۔ طلباء استاد کو آنکھ بند کئے مراقبہ میں دیکھتے تو اس قدر شور مچاتے کہ کمرہ سر پر اٹھا لیتے۔ جس سے ملہم چونک اٹھتا اور ایسی بے نقط اور فحش گالیاں اپنے شاگردوں کو سناتا کہ شیطان بھی امان مانگے۔ پھر وہ ڈائری نکالتا اور اس میں وہ الہامات نقل کر لیتا۔ یہ ڈائری مرزاقادیانی کے ملاحظہ میں بھی آئی تھی۔
باب نمبر:۹ … بعض عقائد خصوصی
۱… حضرت رسول خداﷺ اور مرزاقادیانی برابر ہیں اور بعض غالیوں کے نزدیک مرزاقادیانی افضل بھی ہیں۔ (الفضل ج۲ نمبر۴۳)
۲… ’’اسمہ احمد‘‘ (بلحاظ علم) مرزاقادیانی کے لئے ہے۔ رسول اﷲﷺ اس کے حق دار نہیں۔ (انوار خلافت ص۱۸تا۲۴ ملخص)
۳… ’’کل مسلمان جو حضرت مسیح موعود کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے۔ خواہ انہوں نے حضرت مسیح موعود کا نام بھی نہیں سنا۔ وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ میں تسلیم کرتا ہوں میرے یہ عقائد ہیں۔‘‘ (آئینہ صداقت ص۳۵)
۴… ’’مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی چھاتیوں کا دودھ خشک ہوگیا۔‘‘
(حقیقت الرویا ص۴۶)
مرزاقادیانی اپنے دعویٰ نبوت کی وجہ سے صاف دل اور ایماندار لوگوں کی نگاہ میں تو کھٹکتے تھے۔ لیکن ان کے عقائد بھی عام مسلمانوں کی پریشانی کا باعث ہوئے۔مرزاقادیانی کا عجیب حال ہے۔ کبھی تو وہ لغو اور خلاف عقل ودانش امور پیش کرتے ہیں اور لوگوں کے نہ ماننے پر ڈانٹتے ہیں اور فرماتے ہیں: ’’تمہیں چاہئے کہ اس دنیا کے فلسفیوں کی پیروی مت کرو اور ان کو عزت کی نگاہ سے مت دیکھو کہ یہ سب نادانیاں ہیں۔‘‘ (کشتی نوح ص۲۲، خزائن ج۱۹ ص۲۴)
اور کبھی جمہور اہل اسلام کے عقائد کو غیر معقول اور خلاف فلسفہ وسائنس بتا کر ماننے والوں کو احمق ونادان کہتے ہیں ؎