بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
دیباچہ
گورداسپور کے ضلع میں قادیان ایک غیر معروف اور ویران موضع تھا۔ اس کی قسمت کا ستارہ چمکا اور اس میں مرزاغلام مرتضیٰ کے ہاں ایک لڑکا بنام سندھی بیگ پیدا ہوا۔ جو بعد میں مرزاغلام احمد کہلایا اور اس نے اس گمنام بستی کی رونق بڑھا دی۔ وہ مقام جس کی نسبت خود اس مولود مسعود کو الہام ہوا کہ: ’’اخرج منہ الیزیدیون‘‘ یعنی اس میں یزیدی لوگ پیدا کئے گئے ہیں۔
(ازالہ اوہام ص۷۳، خزائن ج۳ ص۱۳۸)
وہاں کے پیدا شدہ مغل بچہ سے بعد میں بعض عقل کے اندھے برکتیں ڈھونڈنے لگے۔ وہ مقام جہاں کسی کا گذر نہ ہوتا تھا۔ کیونکہ نہ وہ کوئی مرکز علم تھا، نہ مرکز تجارت، نہ کوئی اور کشش ایسی تھی کہ لوگوں کو دوردراز سے کھینچ لائے۔ وہاں اس کثرت سے لوگ آنے جانے لگے کہ کثرت آمد ورفت سے راستوں میں عمیق گڑھے پڑ گئے۔ یہاں خدا نے اپنی تجلیات والہامات اور مکاشفات کے دروازے اپنے ایک بندے پر کھول دئیے۔ جس نے کہا کہ خدا نے میرے آنے کی خبر قرآن میں دی ہے اور میری جائے ولادت کا بھی اس پاک کتاب میں ذکر آیا ہے۔ بلکہ قادیان کا لفظ قرآن میں موجود ہے اور ’’انا انزلناہ قریباً من القادیان‘‘ (ازالہ اوہام ص۷۳، خزائن ج۳ ص۱۳۸) کا ٹانکا لگادیا۔ اس سے بڑھ کر اس گاؤں کی کیا قدر ومنزلت ہوسکتی تھی۔ قادیان کو ’’دارالامان‘‘ کہنے لگے۔ چنانچہ کسی بے فکر نے یہ شعر بھی لکھ دیا ؎
شفائے ہر مرض درقادیاں است
شدہ دارالاماں کوئے نگارے
تھا تو وہ بقول خود رئیس اور رئیس زادہ بھی۔ لیکن خدا جانے کیا ضرورت آپڑی کہ کچہری سیالکوٹ میں ایک نہایت ہی حقیر تنخواہ پر ملازم ہوگیا اور بمشاہرہ پندرہ روپے ماہوار محرر مقرر ہوا۔ خدا کو منظور تھا کہ سیالکوٹ کی سرزمین جہاں اور بہت سی باتوں کے لئے مشہور ہے۔ اس کی شہرت کا ایک ذریعہ یہ بھی رہے کہ صاحب الہام مکاشفہ اور مدعی نبوت ورسالت جو اٹھا اور اس نے ایک دنیا کی توجہ کو اپنی طرف مائل کرلیا۔ اپنی عمر کا ایک حصہ اس شہر میں بسر کرے۔ جس کٹیا کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے شرف بخشا اور اس میں قیام فرمایا۔ وہاں اب امتداد زمانہ کے باعث الّوبول رہے ہیں اور ابابیلوں کے گھونسلوں کے سوا وہاں کچھ بھی نہیں۔ یہ تاراج وبرباد مکان اپنی بیکسی پر