اور ابوجہل تو خود مشہور ہے۔ ایسا ہی ولید بن مغیرہ کی نسبت نہایت درجہ کے سخت الفاظ جو بصورت ظاہر گندی گالیاں معلوم ہوتی ہیں۔ استعمال کئے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۲۶،۲۷، خزائن ج۳ ص۱۱۵، ۱۱۶)
’’قرآن شریف خدا کی کتاب اور میرے منہ کی باتیں ہیں۔‘‘
(سراج المنیر ص۳۲، خزائن ج۱۲ ص۳۴)
قرآن میں نحوی غلطیاں
’’بعض جگہ خداتعالیٰ انسانی محاورات کا پابند نہیں ہوتا۔ یا کسی اور زمانہ کے متروکہ محاورہ کو اختیار کرتا ہے اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ وہ بعض جگہ انسانی گریمر یعنی صرف ونحو کے ماتحت نہیں چلتا۔ اس کی نظیریں قرآن شریف میں بہت پائی جاتی ہیں۔ مثلاً آیت: ’’ان ہذان لساحران‘‘ انسانی نحو کی رو سے ’’ان ہذین‘‘ چاہئے تھا۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۳۰۴ حاشیہ، خزائن ج۲۲ ص۳۱۷)
’’قرآن زمین سے اٹھ گیا تھا۔ میں اسے آسمان پر سے لایا ہوں۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۷۳۱، خزائن ج۳ ص۴۹۳)
باب نمبر:۵ … نبوت مرزاقادیانی
مرزاقادیانی کے دعویٰ نبوت کی تاریخ وترتیب دیکھنی ہو اور ان کی تدریجی ترقی کا راز معلوم کرنا ہو۔ تو مناسب ہے کہ ان کی کتب کا باقاعدہ اور سلسلہ وار مطالعہ کیا جائے۔ اوّل اوّل تو آپ نے ملہمیت کا دعویٰ کیا۔ پھر محدثیت ومجددیت کا۔ اس کے بعد کہیں کہیں دبی زبان سے نبی ہونے کا اعلان کیا۔ لیکن ساتھ ہی اس کی تشریح بھی کر دی کہ اس سے مراد مشرف بہ الہام ہونا اور خدا سے خوشخبریاں پانا ہے اور بس اور مجھے مجاز کے طور پر نبی کہاگیا ہے۔ پھر بتدریج آپ حقیقی نبی بنے اور جلیل القدر اور اولوالعزم مستقل نبیوں پر فضیلت وفوقیت کا دعویٰ کرنے لگے۔ پھر جب مسلمان برہم ہوئے تو کہہ دیا کہ نہیں میری نبوت کچھ ایسی شے نہیں ہے جو باعث پریشانی ہو۔ مجھے رسول خدا کی اتباع سے یہ درجہ ملا ہے۔ میں عکس وبروز اور ظل وسایہ ہوں۔ اس ذات ستودہ صفات کا اور کہا کہ میرے انکار سے کوئی کافر نہیں ہوتا۔ کیونکہ یہ صاحب شریعت نبیوں کی شان ہے کہ ان کے منکر کافر ہوجائیں اور کبھی اپنے نہ ماننے والوں کو کافر اور جہنمی کہہ دیا۔ کبھی فرمایا میں نبی تو ہوں۔ لیکن جدید شریعت نہیں لایا اور کبھی صاحب شریعت ہونے کا دعویٰ کر دیا۔ غرض مرزاقادیانی دعویٰ نبوت کر کے ایک عجیب مشکل میں پڑ گئے۔ کبھی انکار کرتے۔ کبھی اقرار۔ ان کا کلام