احقر نے مسئلہ ختم نبوت پر ایک مفصل کتاب تین حصوں مین بزبان اردو اور اس کا خلاصہ ’’ہدیۃ المہدیین‘‘ بزبان عربی لکھی اور مسئلہ حیات مسیح کے متعلق عربی زبان میں ’’التصریح بما تواتر فی نزول المسیح‘‘ اور اردو میں ’’مسیح موعود کی پہچان‘‘ اور مرزاقادیانی کے مہمل ومتضاد دعوؤں کو ایک مختصر رسالہ میں بنام دعاوی مرزا شائع کرایا۔ اسی زمانے میں علمائے دیوبند اور ائمہ قادیان کا ایک معرکۃ الآراء مناظرہ چھاؤنی فیروز پور پنجاب میں ہوا۔ جس میں ان کی شکست فاش کو ہر طبقے کے مسلمانوںنے محسوس کر لیا۔
الغرض فتنہ قادیانیت کے متعلق حضرات علمائے دیوبند کی یہ مساعی تقریباً دس سال جاری رہیں۔ جس کے سبب فتنہ قادیانت تقریباً قادیان میں دفن ہوکر رہ گیا۔ مسلمان ان کے دجل وفریب سے واقف ہوگئے۔
کیا مسئلہ ختم نبوت وردقادیانیت مجلس احرار کا خاص مسئلہ ہے
مذکورۃ الصدر تصریحات سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ علمائے امت کی یہ مساعی فتنہ قادیانیت کے رد میں اس وقت سے جاری ہیں جب کہ مجلس احرار کی جماعت وجود میں بھی نہ آئی تھی۔ کیونکہ جماعت احرار ۱۹۳۰ء میں قائم ہوئی اور علمائے دیوبند کے مناظرے، تبلیغی دورے، تصنیف واشاعت یہ سب ۱۹۲۱ء سے ۱۹۳۰ء تک کے واقعات ہیں۔ آج بعض ناواقفوں کا کہنا کہ ردقادیانیت یا ختم نبوت کا مسئلہ احرار کی پیدا کردہ بحث ہے۔ حالات سے بالکل ناواقفیت پر مبنی ہے۔
پاکستان میں فتنہ قادیانیت
اگرچہ قادیانیوں کی دسیسہ کاری اوّل ہی سے پاکستان کے خلاف کام کر رہی تھی۔ مگر ان کے بعض ظاہری اعلانات سے مسلمان مجبور یا مسحور ہو گئے اور ہماری غلط کاری یا سوء اتفاق سے پاکستان کی اسلامی سلطنت کے کلیدی (بااختیار) عہدوں پر مرزائی قابض ہوگئے۔ ان لوگوں کو تو پاکستان سے ہمدردی نہ پہلے تھی نہ اب ہے اور نہ آئندہ ہوسکتی ہے۔ کیونکہ ان کا قبلہ گاہ قادیان اور مرکز اطاعت بشیرالدین محمود ہے۔ علمائے اسلام اور مسلمان جنہوں نے پاکستان کے لئے خون بہائے، بچوں کی بسمل لاشیں تڑپتی دیکھیں، ماں بہنوں کی عصمت لٹتی دیکھی ان کے سامنے پاکستان کی نوزائیدہ سلطنت کے مصالح اور اس کے استحکام کی فکر تھی۔ انہوں نے عہدوں، ملازمتوں اور الاٹمنٹوں میں ان کے مظالم علانیہ دیکھنے اور سہنے کے باوجود پانچ سال خاموشی میں گذار دئیے۔