مرتکب ہوں۔ جس کام اور جس عمل کو وہ برا اور قابل نفرت جانیں۔ اسے انبیاء کے ذمہ لگائیں۔ خدا کے انبیائے مقربین سے یہ تمسخر روا نہیں اور اس کی کتاب سے یہ استہزاء جائز نہیں۔
اے مرزائیو! عقل وہوش سے کام لو اور خدا کے لئے کچھ تو سوچو کہ یہ کیا بھول بھلیاں ہیں۔ اب ایک اور مزے کی بات سنئے۔ یہ تو آپ نے دیکھ لیا کہ مرزاقادیانی نے معجزات کو عمل الترب یعنی مسمریزم کہا۔ پھر اس عمل کو قابل نفرت اور مکروہ بھی کہہ دیا۔ لیکن خود ہی ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: ’’مسیح ابن مریم باذن وحکم الٰہی الیسع نبی کی طرح اس عمل الترب میں کمال رکھتے تھے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۳۰۸، خزائن ج۳ ص۲۵۷)
لو یہ کمال ہی ہوگیا۔ ’’باذن وحکم الٰہی‘‘ اور پھر بھی ’’قابل نفرت ومکروہ‘‘ کوئی ہے جو اس عقدہ کو حل کرے۔ دوستو! یہ سب مرزاقادیانی کے حافظہ کا قصور اور فتور ہے۔
مرزاقادیانی کے اس قسم کے عقائد کی بناء پر جن میں سے چند ہم نے ذکر کئے ہیں۔ علماء نے ان پر کفر کا فتویٰ لگایا اور آپ کا انکار کرنا پڑا۔ مگر آپ کا انکار بہت ہی بعد از وقت تھا۔ ان کی کتابوں پر جنہیں عبور حاصل ہے۔ وہ ہرگز اس انکار کی قدر نہیں کر سکتے۔ بہرحال فتویٰ کفر لگنے کے بعد آپ لکھتے ہیں: ’’تمام لوگ جانتے ہیں اور شیخ جی (مولوی محمد حسین بٹالوی) کے کفر نامہ کو پڑھ کر ہر ایک شخص معلوم کر سکتا ہے کہ ان حضرات (مولوی محمد حسین بٹالوی) اور (میاں نذیر حسین دہلوی) نے بڑے اصرار اور قطع اور یقین سے اس عاجز کی نسبت کفر اور بے ایمانی کا فتویٰ لکھا اور دجال اور ضال اور کافر نام رکھا۔ ان الزامات کی نسبت اگرچہ میں نے باربار بیان کیا اور اپنی کتابوں کا مطلب سنایا کہ کوئی کلمہ کفر، ان میں نہیں ہے۔ نہ مجھے دعویٰ نبوت وخروج از امت اور نہ میں منکر معجزات اور ملائک اور لیلتہ القدر سے انکاری اور آنحضرتﷺ خاتم النبیین کا قائل ہوں۔‘‘ (نشان آسمانی ص۳۰، خزائن ج۴ ص۳۹۰)
لیکن اس قسم کے جوابات سے علماء کی مطلق تسلی نہ ہوئی۔ کیونکہ وہ مرزاقادیانی کی تصنیفات سے بخوبی واقف تھے اور جانتے تھے کہ ان کا عذر بالکل بیہودہ اور لغو ہے اور محض کفر کی زد سے بچنے کے لئے انہوں نے یہ الفاظ لکھ دئیے ہیں۔
باب نمبر:۱۱ … چٹکیاں اور گدگدیاں
یوں تو مرزا قادیانی ہر فن میں یکتائے زمان تھے۔ مگر ان کا ترشح قلم نوادر روزگار کا حکم