کرتے ہوئے ان کے سیاہی ومذہبی دجل وفریب سے عوام کو مطلع کیا ہے کہ کس طرح وہ اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لئے رنگ بدلتا رہا اور کس طرح اسلام کا لبادہ پہن کر کفر وارتداد کی تبلیغ کی۔ اب پہلے مسئلہ کو ختم کرتا ہوں اور دوسرے کی ابتداء کرتا ہوں۔
غرض نقشیت کزما یاد ماند
کہ ہستی رانمے بینم بقائے
مرزاغلام احمد قادیانی کے ذاتی حالات
(انہی کی زبان سے) اب میرے سوانح اس طرح پر ہیں کہ میرا نام غلام احمد میرے والد صاحب کا نام غلام مرتضیٰ اور دادا صاحب کا نام عطا محمد اور میرے پردادا کا نام گل محمد تھا اور جیسا بیان کیاگیا ہے۔ ہماری قوم مغل برلاس۱؎ ہے اور میرے بزرگوں کے پرانے کاغذات جو اب تک محفوظ ہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس ملک میں سمرقند سے آئے تھے… سکھوں کے ابتدائی زمانے میں میرے پردادا صاحب مرزاگل محمد ایک نامور اور مشہور رئیس اس نواح کے تھے… اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب میرے پردادا صاحب فوت ہوئے تو بجائے ان کے میرے دادا صاحب یعنی مرزاعطاء محمد صاحب فرزند رشیدان کے گدی نشین ہوئے۔ ان کے وقت میں خدا کی حکمت اور مصلحت سے لڑائی اور سکھ غالب آئے۲؎… اور اس وقت ہمارے بزرگوں پر تباہی آئی… اور وہ پنجاب کی ایک ریاست میں پناہ گزیں ہوئے۔ تھوڑے عرصہ کے بعد انہی دشمنوں کے منصوبے سے میرے دادا صاحب کو زہر دی گئی۔ پھر رنجیت سنگھ کی سلطنت کے آخری زمانے میں میرے والد صاحب مرحوم مرزا غلام مرتضیٰ قادیان آئے اور مرزا موصوف کو اپنے والد کے دیہات میں سے پانچ گاؤں واپس ملے… پھر بھی بلحاظ پرانے خاندان کے میرے والد صاحب مرزاغلام مرتضیٰ اس نواح میں ایک مشہور رئیس تھے۔
۱؎ دو باتیں قابل غور ہیں۔ (۱)مغل کوئی قوم نہیں بلکہ ایک قبیلہ ہے کہ سب مسلمان ایک قوم ہیں۔ اس سے مرزاقادیانی کی علمی جہالت معلوم ہوئی۔ (۲)’’وجعلنا فی ذریتہم النبوۃ والکتاب‘‘ سے ظاہر ہوتا ہے کہ نبوت خاندان ابراہیم یعنی اسماعیل واسحاق میں محصور ہوچکی ہے تو اس سے مرزاقادیانی کا کذب وافتراء معلوم ہوا کہ مغل ابراہیمی نسل سے نہیں ہیں۔
۲؎ جی ہاں خدا کی مصلحت ہمیشہ ان کے خاندان کے ساتھ رہی ہے۔ دادا صاحب کے زمانے میں سکھ غالب آئے اور پوتے صاحب کے زمانے میں انگریز غالب آئے۔ وہ بھی صرف ہندوستان پر نہیں عالم اسلام پر اور شاید یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟