میں نے یہ سارا قصہ عبداﷲ کو سنایا اور اس وقت میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ عبداﷲ جو ایک روایت کا گواہ ہے اس پر بہت اثر ہوا۔ اور اس نے میرا کرتہ بطور تبرک کے اپنے پاس رکھ لیا۔ جو اب تک اس کے پاس موجود ہے۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۲۵۵، خزائن ج۲۲ص۲۶۷)
اﷲ اﷲ! کیسی معرفت کی باتیں ہیں۔ یہ واقعی ایک غیر آدمی ہرگز نہ سمجھے گا کہ خدا تعالیٰ کی لبریز دوات جس میں خدا تعالیٰ نے نعوذباﷲ! اس عجلت سے قلم ڈالا کہ طفل مکتب بھی ایسا نہیں کرتا اور آخر قلم کو جھٹکا اور اس کی مطلق پرواہ نہ کی کہ سرخی کے قطرے مرزا قادیانی کے کرتے پر گریں گے یا میاں عبداﷲ کی ٹوپی خراب ہوگی۔ کوئی بدتمیز بچہ بھی ایسی حرکت نہیں کرتا۔ شاید مرزا قادیانی کا وہ کرتہ آج تک محفوظ ہو اور اس کے امتحان سے پتہ چل سکے کہ ایسی سیاہی دنیا کے کس کارخانہ میں تیار ہوسکتی ہے؟۔ جس کے چھینٹے اس پر پڑے ہیں اور اگر یہ پتہ چل جائے کہ فلاں کارخانہ میں ایسا رنگ تیار ہوتا ہے تو پھر صرف یہ امر دریافت طلب رہ جائے گا کہ خدا کا قلم کہاں سے آیا۔ اور اس کی دوات کس کارخانہ میں تیار ہوئی۔ وہ قلم کتنا بڑا تھا۔ دوات کا حجم کیا تھا؟۔
صاحبزادہ عبداللطیف کی لاش کی خوشبو
۲… ’’وہ صاحبزادہ عبداللطیف (جو مرزا قادیانی کے مرید تھے) پتھروں سے سنگسار کئے گئے۔ اور ایسی استقامت دکھائی کہ ایک آہ بھی ان کے منہ سے نہ نکلی اور چالیس دن تک ان کی لاش پتھروں پر پڑی رہی۔ اور پھر ایک مرید احمد نور نام نے ان کی لاش دفن کی اور بیان کیاگیا کہ ان کے قبر سے اب تک مشک کی خوشبو آتی ہے اور ایک بال ان کا اس جگہ پہنچایا گیا جس سے اب تک مشک کی خوشبو آتی ہے اور ہمارے بیت الدعا کے ایک گوشہ میں ایک شیشی میں آویزاں ہے۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۲۰۲، خزائن ج۲۲ص۲۱۱)
چالیس دن تک جو نعش پتھروں پر پڑی رہی اس سے جس قسم کی خوشبو آتی ہوگی وہ سب قیاس کرسکتے ہیں۔ افسوس ہے کہ چونکہ نعش بالآخر دفن کی گئی۔ اس لئے اب اس کی خوشبو سونگھنے کا ہمیں شرف حاصل نہیں ہوسکتا۔ لیکن صاحبزدہ عبداللطیف کی بال کی زیارت کے ہم از بس مشتاق ہیں جس سے مشک کی خوشبو آتی ہے اور جو مرزا قادیانی کے بیت الدعا کے ایک گوشہ میں ایک شیشی میں آویزاں ہے۔
زیارت مسیح علیہ السلام
۳… ’’اور خدا کی عجیب باتوں میں سے جو مجھے ملی ہیں ایک یہ بھی جو میں نے