رکھتا تھا۔ بعض تو انہیں ایک بڑا ادیب خیال کرتے تھے۔ اور ان کے مرید انہیں سلطان القلم کہتے تھے۔ ہم بھی انہیں اپنے مخصوص رنگ میں یکتا اور وحید العصر خیال کرتے ہیں۔ خیر آپ نے جو کچھ لکھا۔ علم ادب کے اعتبار سے اس کا کچھ ہی پایہ کیوں نہ ہو۔ مگر غلط ہونے میں، مبالغہ آمیزی میں، قابل استہزاء طویل اور بے سروپا ہونے میں نظم یا نثر محیرالعقول ہونے میں بے مثل اور بے نظیر تھا۔ ذات شریف کی نسبت ایسے ایسے دعویٰ کئے کہ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھے۔ الہامات جو سنائے وہ اس قابل ہیں کہ انسان پڑھے اور ہنسے۔ پھر پڑھے اور پھر ہنسے۔ پیشگوئیاں ایسی ہیں جو یا تو بالکل ہی جھوٹ ثابت ہوئیں یا مبہم سی رہ گئیں۔ اسلام کو خوب ہی بگاڑا۔ عقائد کی کایاپلٹ دی۔ نبوت کا حال خراب کیا۔ غرض جو بات کی خدا کی قسم لاجواب کی۔
مگر ان سب باتوں کے علاوہ کچھ ایسے عجیب وغریب لطیفے بھی بیان کئے جن کے لئے ہم نے ’’چٹکیاں اور گدگدیاں‘‘ عنوان تجویز کیا ہے جو عجیب بھی ہیں اور مزیدار بھی۔ جن میں معرفت بھی ہے اور ظرافت بھی۔ ہم ان میں سے چند یہاں انتخاب کرکے پیش کرتے ہیں۔ تاکہ ناظرین! پڑھیں اور ان کی داد دیں اور جس دماغ کا یہ نتیجہ ہیں اس پر فتویٰ لگائیں۔
خدا کی دوات کی سرخی مرزا قادیانی کے کرتے پر
۱… ’’ایک دفعہ تمثیلی طور پر مجھے خدا کی زیارت ہوئی۔ اور میں نے اپنے ہاتھ سے کئی پیشگوئیاں لکھیں۔ جن کا مطلب یہ تھا کہ ایسے واقعات آئندہ ہونے چاہئیں۔ تب میں نے وہ کاغذات دستخط کرانے کے لئے خدائے تعالیٰ کے سامنے پیش کئے اور اﷲ تعالیٰ نے بغیر کسی تأمل کے سرخی کی قلم سے اس پر دستخط کردئیے اور دستخط کرتے وقت قلم کو چھڑکا۔ جیسا کہ جب قلم پر زیادہ سیاہی آجاتی ہے تو اسی طرح قلم کو جھاڑ دیتے ہیں اور پھر دستخط کردئیے اور میرے پر اس وقت نہایت رقت کا عالم تھا۔ اس خیال سے کہ کس قدر خدا تعالیٰ کا میرے پر فضل ہے کہ جو کچھ میں نے چاہا بلا توقف خدا تعالیٰ نے اس پر دستخط کردئیے اور اسی وقت میری آنکھ کھل گئی اور اسی وقت میاں عبداﷲ سنوری مسجد کے حجرے میں میرے پائوں دبا رہے تھے کہ اس کے روبرو غیب سے سرخی کے قطرے میرے کرتے اور اس کی ٹوپی پر گرے اور عجیب بات یہ ہے کہ اس سرخی کے قطرے گرنے اور قلم کے جھاڑنے کا ایک ہی وقت تھا۔ ایک سیکنڈ کا بھی فرق نہ تھا۔ ایک غیر آدمی اس راز کو ہرگز نہ سمجھے گا اور شک کرے گا ۔ کیونکہ اس کو ایک خواب کا معاملہ محسوس ہوگا۔ مگر جس کو روحانی امور کا علم ہو وہ اس میں شک نہیں کرسکتا۔ اسی طرح خدا نیست سے ہست کرتا ہے۔ غرض