۶… ’’حضرت مسیح کے عمل مسمریزم سے وہ مردے زندہ ہوتے تھے یعنی وہ قریب الموت آدمی جو گویا نئے سرے سے زندہ ہو جاتے تھے وہ بلاتوقف چند منٹ میں مر جاتے تھے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۳۱۱، خزائن ج۳ ص۲۵۸)
’’واقعی اور حقیقی حیات پیدا نہ ہوتی تھی۔ بلکہ صرف ظلی اور مجازی اور جھوٹی حیات جو علم مسمریزم کے ذریعہ سے پیدا ہو سکتی ہے۔ ایک جھوٹی جھلک کی طرح ان میں پیدا ہو جاتی تھی۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۱۸، خزائن ج۳ ص۲۶۲)
۷… ’’یہ بھی جاننا چاہئے کہ سلب امراض کرنا یا اپنی روح کی گرمی جماد میں ڈال دینا درحقیقت یہ سب عمل الترب کی شاخیں ہیں۔ ہر زمانے میں ایسے لوگ ہوتے رہتے ہیں اور اب بھی موجود ہیں۔ جو اس روحانی عمل کے ذریعہ سے سلب امراض کرتے رہتے ہیں اور مفلوج مبروص ومدقوق وغیرہ ان کی توجہ سے اچھے ہوتے رہتے ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۰۷، خزائن ج۳ ص۲۵۷)
مرزاقادیانی نے قرآن کریم کے تمام بیان کردہ معجزات کو جو انبیائے بنی اسرائیل سے ظاہر ہوئے۔ مسمریزم اور عمل الترب کہا ہے۔ جو گناہ عظیم ہے۔ (بلکہ کفر خالص۔ مرتب) لیکن اسی پر اکتفا نہیں کیا۔ بلکہ اس عمل کو مکروہ اور قابل نفرت کہہ کر نہ صرف انکار معجزات کیا۔ بلکہ معجزات کو مکروہ اور قابل نفرت شے بتایا ہے۔ صاحب الہام اور ایسے شخص کا جو مشرف بہ مکالمہ ومخاطبہ الٰہیہ ہو۔ تو کیا مذکور۔ کسی مسلمان کا بھی جو خدا پر ایمان رکھتا ہو یہ منصب نہیں کہ ایسے ناشائستہ کلمات زبان پر لائے۔ ملاحظہ ہو فرماتے ہیں کہ: ’’اگر یہ عاجز اس عمل کو مکروہ اور قابل نفرت نہ سمجھتا تو خداتعالیٰ کے فضل وتوفیق سے امید قوی رکھتا تھا کہ ان عجوبہ نمائیوں میں حضرت مسیح ابن مریم سے کم نہ رہتا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۳۰۹، خزائن ج۳ ص۲۵۸)
اور پھر ارشاد ہوتا ہے کہ: ’’کاملین ایسے عملوں سے پرہیز کرتے رہے ہیں۔ مگر بعض لوگ اپنی ولایت کا ایک ثبوت بنانے کی غرض سے یا کسی اور نیت سے ان مشغلوں میں مبتلا ہوگئے تھے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۳۰۸، خزائن ج۳ ص۲۵۷)
کیا اب بھی کچھ شک ہے کہ مرزاقادیانی منکر خدا، دہریہ اور ملحد تھے اور اس کے پاک نبیوں کی ہنسی اڑاتے تھے۔ کیونکہ بجز اس کے یہ کیونکر ممکن تھا کہ جس امر کو مرزاقادیانی معیوب خیال کریں۔ اسے انبیاء الوالعزم کی طرف منسوب کر کے ان کی تنقیص شان اور تحقیر وتذلیل کے