Words of God can not exchange.
الہامی انگریزی کا نمونہ ہے۔ کیونکہ انسان محاورہ میں یہ استعمال نہیں ہوتا۔
۱۳… پھر فرمایا۔ ’’ھو شعنا نعسا‘‘ یہ دونوں فقرے شاید عبرانی ہیں اور ان کے معنی ابھی تک اس عاجز پر نہیں کھلے۔‘‘ (براہین احمدیہ ص۵۵۴، خزائن ج۱ ص۶۶۴)
یہ گلابی انگریزی جہاں جناب ملہم کی وجہالت کا بیّن ثبوت ہے۔ وہیں انگریزی دانوں کے لئے ظرافت وتفنن طبع کا موجب یہی ہے۔ ہمارے دوست اس غلط انگریزی پر ہنستے ہیں۔ مگر ہم انہیں بتانا چاہتے ہیں کہ یہ خدا کی بولی ہے اور خدا انسان محاورات کا پابند نہیں۔ تحقیق خدا نہیں شرماتا کہ چوتھی جماعت کے نالائق طالب علم ایسی یا اس سے بھی غلط انگریزی بولے۔ پس کوئی غیراحمدی معترض نہ ہو۔ ہمیں تو بفضلہ مرزاقادیانی کے الہام بافی کی مشین کے تمام کیل کاٹنے اور پرزے معلوم ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ وہ الہامات کیا تھے۔ کیونکر ہوتے تھے اور ان کی حقیقت کیا ہے۔ لیکن شاید یہ راز چند واقفان حال کے سوا کسی پر نہ کھلتا۔ مگر ان انگریزی الہامات نے ساری حقیقت کو بے نقاب کر دیا ہے اور اب ہر کس وناکس معلوم کر سکتا ہے کہ یہ غلط انگریزی اور ٹوٹے پھوٹے ناتمام سے جملے اس خدا کا کلام تو ہو نہیں سکتا۔ جو نہایت فصیح شستہ اور نکھری ہوئی زبان میں گویا ہوتا ہے۔ جس کا کلام فصاحت اور بلاغت میں بے مثل ہی نہیں۔ بلکہ محل اعجاز ہے اور جس کا نمونہ قرآن مجید میں منضبط ہے۔ نتیجہ صاف ہے کہ یہ مرزاقادیانی کی اپنی باتیں ہیں۔ جو وہ خدا کے نام پر دنیا میں شائع کرتے رہے۔ فارسی اور عربی میں آپ کو کافی دسترس تھی۔ اس لئے بڑے بڑے قصائد لکھ دئیے (گو وہ بھی اغلاط سے پر ہیں۔ مرتب) اور دنیا کو مقابلہ کے لئے للکارا۔لیکن انگریزی سے بے بہرہ تھے۔ اس لئے جو کسی مسخرے نے کہہ دیا کہ Words of God can not exchange. کے یہ معنی ہیں کہ خدا کی باتیں بدل نہیں سکتیں۔ بس یہی لے اڑے اور اتنی توفیق نہ ہوئی کہ کسی انگریزی جاننے والے سے اس کی اصلاح کرالیں۔ تاکہ اس الہام کی مٹی پلید نہ ہوتی کہ اے مرزا: ’’تیرا کلام خدا کی طرف سے فصیح کیاگیا۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۰۲،۱۰۳، خزائن ج۲۲ ص۱۰۵،۱۰۶)
مرزاقادیانی کے ظہور سے قبل الہام ایک غیرمعمولی شے سمجھی جاتی تھی۔ لیکن ان کے فیضان سے یہ نعمت بہت عام ہوگئی اور وہ اپنی امت میں اس کے لئے بہت وسیع دروازہ کھول گئے