عنکبوتی پناہ گاہ میں پناہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ ظلی وبروزی نبی کی ایک خانہ ساز اصطلاح ہے۔ جو درحقیقت بالکل بے بنیاد قطعاً لغو اور کلیتہً مہمل شئے ہے۔
ان کا کہنا یہ ہے کہ آیات واحادیث میں محمد رسول اﷲﷺ کے بعد کسی نبی کی بعثت کی جو نفی کی گئی ہے وہ صرف حقیقی اور مستقل نبی کے متعلق ہے۔ نبی کی ایک دوسری قسم بھی ہےجو حقیقی اور مستقل نبی نہیں ہوتا۔ بلکہ جس کا نام ظلی وبروزی نبی ہے۔ یعنی وہ کسی مستقل نبی کا تابع ہوتا ہے۔ جسے اسی کا ظہور ثانی کہہ سکتے ہیں۔ یہ مغالطہ اگرچہ جاہلوں اور ناواقفوں کے لئے گمراہ کن ہے۔ مگر درحقیقت بیت عنکبوت سے بھی زیادہ کمزور، انتہائی بے جان، بے اصل اور لغو ہے۔ متعدد وجوہ سے اس کا باطل ہونا ظاہر ہے۔
۱… اس میں پہلا سقم تو یہی ہے کہ یہ ایک من گھڑت اور اختراعی تقسیم جس کی کوئی سند قرآن وحدیث میں نہیں ملتی۔ ایک بدیہی بات ہے کہ نبوت کی قسمیں نکالنے اور اس کی نئی نئی تعریفیں اختراع کرنے میں ہم آزاد نہیں ہیں۔ اس کے علم کا ذریعہ تو صرف وحی ربانی یعنی قرآن وحدیث ہی ہے۔ جب تک قرآن وحدیث سے صراحتاً یہ نہ ثا بت ہو جائے کہ بعض انبیاء ظلی وبروزی بھی ہوتے ہیں اور ان کی نبوت کی حقیقت وہی ہوتی ہے جو یہ منکرین ختم نبوت بیان کرتے ہیں۔ اس وقت تک یہ تقسیم بالکل غلط، بے اصل اور لغو قرار پائے گی۔ دوسری طرز سے یوں سمجھنا چاہئے کہ کسی نبی کے متعلق یہ سمجھنا کہ وہ ظلی نبی ہے یا یہ سمجھنا کہ اﷲتعالیٰ نے ظلی نبی بھی دنیا میں بھیجے ہیں۔ نبوت کے متعلق ایک اہم عقلی وساوس واحتمالات پر جہاں تک قرآن وحدیث کا تعلق ہے ان مدعیان باطل کو اپنے اس باطل دعویٰ کو ثابت کرنے کے لئے صراحت تو کیا ادنیٰ اشارہ بھی نہیں مل سکتا۔
ظلی وبروزی نبوت کے باطل ہونے اور اصلی وظلی کے اس تقسیم کے لغو مہمل ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہم قرآن مجید کے الفاظ میں ان ظلی وبروزی والوں سے کہہ دیں کہ: ’’ھاتوا برہانکم ان کنتم صادقین (البقرہ:۱۱۱)‘‘ ہمارا مزید احسان ہوگا اگر ہم انہیں یہ بھی سمجھا دیں کہ: ’’فان لم تفعلوا ولن تفعلوا فاتقوا النار التی وقودھا الناس والحجارۃ اعدت للکافرین (البقرہ:۲۴)‘‘
تاہم اگر اس لغؤ لاطائل اور بے سند، خیال کی غلطی ومہملیت کچھ اور واضح کر دی جائے تو انشاء اﷲ مفید ہوگا۔
۲… قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں جہاں جہاں خاتم النبیینﷺ کے بعد